سوال (4508)
حدثنا الحسن بن علي، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن صالح بن كيسان، عن نافع بن جبير بن مطعم، عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:” ليس للولي مع الثيب امر، واليتيمة تستامر، وصمتها إقرارها”.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ولی کا ثیبہ عورت پر کچھ اختیار نہیں، اور یتیم لڑکی سے پوچھا جائے گا اس کی خاموشی ہی اس کا اقرار ہے“۔
[تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2098، تحفة الأشراف: 6517، صحیح]
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
أخرجه النسائي : 3265
سنن النسائى الصغرى3262عبد الله بن عباس الأيم أحق بنفسها من وليها البكر تستأذن في نفسها وإذنها صماتها۔
سنن النسائى الصغرى 3263 عبد الله بن عباس الأيم أحق بنفسها من وليها اليتيمة تستأمر وإذنها صماتها۔
سنن النسائى الصغرى3264عبد الله بن عباس الأيم أولى بأمرها اليتيمة تستأمر في نفسها وإذنها صماتها۔
سنن النسائى الصغرى3265عبد الله بن عباس ليس للولي مع الثيب أمر اليتيمة تستأمر فصمتها إقرارها،
سنن النسائى الصغرى3266عبد الله بن عباس الثيب أحق بنفسها البكر يستأمرها أبوها وإذنها صماتها۔
صحيح مسلم3476عبد الله بن عباس الأيم أحق بنفسها من وليها البكر تستأذن في نفسها وإذنها صماتها۔
صحيح مسلم3477عبد الله بن عباس الثيب أحق بنفسها من وليها البكر تستأمر وإذنها سكوتها۔
جامع الترمذي1108عبد الله بن عباس الأيم أحق بنفسها من وليها البكر تستأذن في نفسها وإذنها صماتها۔
سنن أبي داود2098عبد الله بن عباس الأيم أحق بنفسها من وليها البكر تستأذن في نفسها وإذنها صماتها۔
سنن أبي داود2100عبد الله بن عباس ليس للولي مع الثيب أمر اليتيمة تستأمر وصمتها إقرارها،
سنن ابن ماجه1870عبد الله بن عباس الأيم أولى بنفسها من وليها البكر تستأمر في نفسها البكر تستحيي أن تتكلم قال إذنها سكوتها۔
موطا امام مالك رواية ابن القاسم351 عبد الله بن عباس الايم احق بنفسها من وليها، والبكر تستاذن فى نفسها، وإذنها صماتها۔
بلوغ المرام:838عبد الله بن عباس الثيب أحق بنفسها من وليها، والبكر تستأمر، وإذنها سكوتها۔
مسندالحميدي: 527عبد الله بن عباس الثيب أحق بنفسها من وليها والبكر تستأمر في نفسها فصمتها إقرارها،
اس بنیاد پہ کہا جاتا ہے کہ ولی کے دلائل کنواری کے ساتھ خاص ہیں، ثیبہ پر ولی کا کوئی بھی اختیار نہیں ہے؟
جواب
کسی قسم کا اختیار نہ ہونا اور ولی کے بغیر نکاح ہونا الگ الگ ہیں۔
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
احق بنفسھا من ولیھا” کے الفاظ خود دلیل ہیں کہ ولی کو بھی حق ہے لیکن ذیادہ حق ثیبہ کا ہے۔
کسی کو ذیادہ اختیار و حق ملنے سے وہ مختار کل نہیں ہوجاتا۔
معنی یہ ہے کہ ثیبہ کا اختیار تھوڑا بڑھ گیا ہے، وہ رشتہ دیکھ سکتی ہے، رشتے کو پرکھ سکتی ہے اور ولی کے سامنے معاملات رکھ سکتی ہے لیکن ولی اگر اجازت نہ دے تو نکاح نہیں کرسکتی۔
لا نکاح الا بولی اپنی جگہ حکم برقرار ہے۔
واللہ اعلم
فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ
یقیناً آپ کے مخاطب احناف ہونگے، احناف کنواری کے لیے بھی ولی کی شرط نہیں لگاتے ہیں، اب ظاہر سی بات ہے کہ انہوں نے ثیبہ کے لیے وہی بات کرنی ہے، جو آپ بتا رہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ولی دونوں کے لیے شرط ہے، باقی ولی دونوں پر اپنا فیصلہ مسلط نہیں کر سکتا ہے، باقی حیا کی وجہ سے کنواری کی خاموشی اذن قرار دے دیا گیا ہے، ثیبہ کے لیے یہ کہا گیا ہے کہ وہ اپنے بارے میں زیادہ حق رکھتی ہے، وہ اس اعتبار سے کہ وہ بول سکتی ہے، کیونکہ وہ ایک تجربہ گزار چکی ہے، شوہر دیدہ ہوگئی ہے، ولی اس کے لیے بھی شرط ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل
میرے مخاطب اس وقت اہل حدیث ہیں، وہ کہہ رہے ہیں کہ اہل حدیث احناف کی وجہ سے سختی اختیار کر رہے ہیں۔ تو ان کو کیا کہنا چاہیے۔
جواب
جماعت اہل حدیث والے من حیث المجموع کبھی بھی تشدد کا راستہ نہیں اختیار کرتے ہیں، باقی اگر کسی فرد واحد نے اختیار کی ہے تو وہ اس کا ذاتی مسئلہ ہے، باقی اس حوالے سے سلف صالحین نے یہی بات کی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
“لیس للولی مع الثیب امر” کا مفہوم دیگر طرق سے وارد الفاظ کو دیکھ کر لیا جائیگا کہ ولی کو ثیبہ کے ساتھ کامل اختیار نہیں ہے۔۔ وہ اپنا فیصلہ اس پر تھوپ نہیں سکتا جب تک کہ ثیبہ کی طرف سے واضح الفاظ میں رضامندی نہ ظاہر کی جائے۔
احادیث ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں، وہ مفھوم لینا چاہئیے جو تمام طرق و الفاظ کو سامنے رکھ کر نکلتا ہو نہ کہ ایک سند سے وارد لفظ کو لیکر اس پر شدت اختیار کی جائے جبکہ سلف نے بھی وہ مفھوم نہ لیا ہو جو سمجھا جارہا ہے۔
فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ