سوال (4659)
سیدنا عمر سے فرشتے ہم کلام ہوتے تھے؟
جواب
جی بخاری شریف میں حدیث ہے۔
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:” لَقَدْ كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ رِجَالٌ يُكَلَّمُونَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونُوا أَنْبِيَاءَ، فَإِنْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِي مِنْهُمْ أَحَدٌ فَعُمَرُ”. [صحیح البخاری: 3689]
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہوا کرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیا کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے تو وہ عمر ہیں۔
فضیلۃ الباحث ابو زرعہ عبد الباسط شیخ حفظہ اللہ
فائده: رسول الله صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:
ان الله جعل الحق علی لسان عمر و قلبه۔
بلاشبہ الله تعالیٰ نے سیدنا عمر رضی الله عنه کے زبان و قلب پر حق جاری فرما دیا تھا۔
[(فضائل الصحابۃ لاحمد بن حنبل: 315،524) (صحیح ابن حبان: 6889) سندہ حسن۔
اسی طرح دیکھیے (مسند احمد: 5145) (سنن ترمذی: 3682) (مسند عبد بن حمید: 758) (فضائل الصحابۃ: 313) المعرفۃ والتاریخ للفسوی:1/ 467، الناسخ والمنسوخ للنحاس:( 333) (صحیح ابن حبان: 6895) سندہ حسن لذاتہ)]
ایک اور حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:
ﺇﻥ اﻟﻠﻪ ﺿﺮﺏ ﺑﺎﻟﺤﻖ ﻋﻠﻰ ﻟﺴﺎﻥ ﻋﻤﺮ ﻭﻗﻠﺒﻪ ﻗﺎﻝ ﻋﻔﺎﻥ: ﻋﻠﻰ ﻟﺴﺎﻥ ﻋﻤﺮ ﻳﻘﻮﻝ ﺑﻪ
(مسند أحمد بن حنبل: 21295) سنده صحيح
ایک اور حديث میں یوں الفاظ ہیں:
إن اﻟﻠﻪ ﻭﺿﻊ اﻟﺤﻖ ﻋﻠﻰ ﻟﺴﺎﻥ ﻋﻤﺮ ﻳﻘﻮﻝ ﺑﻪ، [مسند أحمد بن حنبل :21542)، المعرفة والتاريخ للفسوى: 1/ 416 سنده حسن لذاته لأجل محمد بن إسحاق وقد صرح بالسماع عند يعقوب بن سفيان الفسوي،]
مراد یہ ہے کہ اغلب واکثر سیدنا عمر فاروق رضی الله عنہ کی بات مبنی بر حق ہوتی تھی بلکہ کئ مرتبہ تو رب العالمین نے وحی نازل فرما کر ان کی بات کی تائید فرمائی.
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ