سوال (1494)

کیا پندرہ دن کا حمل ضائع کیا جا سکتا ہے؟ یہ بھی گناہ میں شمار ہوگا ؟ صحت کے مسائل ہیں اور پانچواں آپریشن ہے۔

جواب

جب حمل پہلے مرحلہ میں ہو جو کہ چالیس یوم ہے اور اسقاط حمل میں کوئی شرعی مصلحت ہو یا پھر کسی ضرر کو دور کرنا مقصود ہو تو اسقاط حمل جائز ہے ، لیکن اس مدت میں تربیت اولاد میں مشقت یا ان کے معیشت اور خرچہ پورا نہ کرسکنے کے خدشہ کے پیش نظر یا ان کے مستقبل کی وجہ سے یا پھر خاوند بیوی کے پاس جو اولاد موجود ہے ، اسی پر اکتفا کرنے کی بنا پر اسقاط حمل کروانا جائز نہيں ، جب مضغہ اور علقہ یعنی دوسرے اور تیسرے چالیس یوم ہو تو اسقاط حمل جائز نہيں ہے ، حمل کے تیسرے مرحلے اور چار ماہ مکمل ہوجانے کے بعد بھی اسقاط حمل حلال نہیں ہے ۔
کچھ فقہاء کرام ایسے بھی ہيں جوحمل کے ابتدائی چالیس ایام میں اسقاط حمل کو جائز قرار دیتے ہیں ، اور بعض روح ڈالے جانے سے قبل تک اسقاط کی اجازت دیتے ہیں ، اور جتنا بھی عذر قوی ہوگا اسقاط کی رخصت بھی زیادہ ظاہر ہوگی ، اور پھر جتنا بھی چالیس یوم سے قبل ہوگا اتنا ہی رخصت کے زيادہ قریب ہوگا ۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ