سوال (2209)

ایک دکان سے شربت پی لیا ہے، بعد میں پتہ چلا کہ اس میں بھنگ ہے، کیا شربت میں بھنگ حلال ہے یا حرام ہے؟

جواب

بھنگ مسکر ہونے کی وجہ سے حرام ہے، لا علمی میں پی لیا یا کسی نے پلادی ہے، تو اس صورت میں گناہ نہیں ہوگا۔
ان شاءاللہ۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

بھنگ چونکہ نشہ ہے۔ “كل مسكر خمر و كل خمر حرام” کے تحت یہ حرام ہے، ایسی چیز اگر غلطی سے کھالی ہے تو اس کو چاہیے کہ قیئ کردے، اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر توبہ و استغفار کرے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

بھنگ چاہے جہاں بھی ہو وہ حرام ہی ہوتی ہے، مسئلہ کو پیش یوں کیا جانا چاہیے کہ اب اس شخص کو گناہ ہوگا یا نہیں تو مذکورہ صورت میں جیسا کہ لاعلمی ہے تو رفع عن امتی الخطا والنسیان و ما استکرھوا” کے تحت کوئی گناہ نہیں ہے۔
ھذا ماعندی واللہ اعلم باالصواب

فضیلۃ الباحث سمیر بن سیف اللہ حفظہ اللہ

حلت و حرمت کا اختیار صرف الله سبحان و تعالى کو ہے اور رب العالمین نے انسان کو صرف حلال اور طیب کھانے کا حکم دیا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:

“يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ” [البقرہ: 168]

«اے لوگو! ان چیزوں میں سے جو زمین میں ہیں حلال، پاکیزہ کھاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے»

“وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ” [المائدہ: 88]

«اور الله نے تمہیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے حلال، طیب کھاؤ اور اس الله سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھنے والے ہو»

“فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ” [النحل: 114]

«سو کھاؤ اس میں سے جو اللہ نے تمھیں حلال، پاکیزہ رزق دیا ہے اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو، اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو»
الله سبحانه و تعالى کے ان ارشادات عالیہ سے معلوم ہوا کہ اہل ایمان صرف حلال اور طیب کھانے کے پابند ہیں اور اس سے تجاوز کھلی سرکشی اور صریح نافرمانی و گناہ ہے، اور بھنگ بھی نشہ آور اشیاء میں سے ایک ہے، جو شخص پہلی بار پی لے یا اس کے ساتھ بنی ہوئی چیز کھا لے اسے اچھی خاصی تکلیف و نشہ ہوتا ہے یہ کچھ ہمارے بعض اقربا کے ساتھ ہو چکا ہے۔ لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ آج مذہبی پیشوا اس کی فضیلت و اہمیت بیان کرتے ہوئے ملتے ہیں، ہمارے گاؤں میں ایک پیر اور بزرگ سال بعد آتے ہیں وہ ہمارے گاؤں کی بھنگ دیکھ کر کہہ رہا تھا یہ بھنگ بہت اعلی کوالٹی کی ہے اور آج بھی ملنگ طبقہ مزارات و درباروں پر اسے پیتے ہوئے ملیں گے۔ هداهم الله تعالى۔
دین اسلام پر ایمان لانے اور کلمہ طیبہ کا اقرار کرنے کا مقصد و معنی یہ ہے کہ ہماری زندگی شریعت اسلامیہ کی روشن تعلیمات اور حدود و قیود کے اندر رہ کر بسر ہوں گی جو بھنگ پیتے ہیں یا اس کی حمایت و تائید کرتے ہیں وہ دیکھیں کہ آیا ہمارا یہ طرز عمل دین اسلام کی تعلیمات واحکام کے مطابق ہے یا مخالف ہے۔۔۔؟
تو ارشادات رب العالمین کی روشنی میں یہ مسئلہ بالکل واضح ہے کہ اہل ایمان کو صرف حلال اور طیب کھانے اور پینے کا حکم و اجازت ہے اور بھنگ کے حلال و طیب ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے، بلکہ قرآن کریم اور حدیث مبارک کے عام الفاظ ﻛﻞ ﻣﺴﻜﺮ ﺣﺮاﻡ [صحیح البخاری: 4343] کی روشنی میں یہ چیز حرام ہے اگر اسے حرام نہیں بھی مانیں تو یہ حلال و طیب بھی نہیں ہے کہ اس کے حلال و طیب ہونے پر کوئی دلیل صریح موجود نہیں ہے۔ ہاں کوئی بھی گناہ اور خلاف شرع عمل اگر لا علمی میں سرزد ہو جائے تو اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے۔ گناہ اس وقت گناہ کہلاتا ہے جب اس میں ایک تو علم ہو دوسرا ارادہ و نیت شامل ہو یعنی علم ہونے کے ساتھ قصدا اسے سر انجام دیا گیا ہو تو وہ عمل گناہ و جرم کہلاتا ہے۔قرآن وحدیث کے دلائل کا یہی خلاصہ ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ