سوال (1467)

کیا سیکھوں کی عبادت گاہ پر جانا سیر و تفریح کے لیے درست ہے ؟ جیسے پاکستان میں کرتار پور ہے ، وہاں اکثر لوگوں کو جاتے دیکھا ہے ، آج ایک عالم دین کو بھی دیکھا انہوں نے اپنی تصویر لگائی تھی ؟

جواب

اس سلسلے میں سب سے پہلے دیکھنا یہ ہے کہ “أنما الأعمال باالنيات” آپ وہاں کس نیت سے جاتے ہیں ، وہاں ان کا طرز عبادت دیکھ کر واپس آکر لوگوں کو یہ سمجھایا جائے کہ جو چیزیں آپ کے مزاروں ، درگاہوں اور آستانوں پر موجود ہیں ، وہ چیزیں سکھوں کی گردوارے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہوں ، یہ حقیقت ہے کہ کرتار پور جو گردوارہ ابھی بنا ہے ، دنیا کا سب سے بڑا ہے ، میرا اس طرف اپنے ذاتی کاموں کی وجہ سے آنا جانا رہتا ہے ، خاص طور پر میں آج تک کبھی وہاں نہیں گیا ، لیکن میں نے اس کو اس وقت بھی دیکھا تھا جب یہ بالکل ویران تھا ، اب دوبارہ جب اس پر اچھا خاصا روپیہ خرچ کیا گیا تو اس وقت بھی میں نے اس کو دیکھا ہے ۔
اسی طریقے سے ایک نیت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کا ہمارے عام آدمی کو پتہ نہیں ہے کہ حکومت پاکستان نے اتنا بڑا منصوبہ کیوں بنایا ہے ، یہ ایک بڑا دفاعی اہم نقطہ ہے ، جس پر غور کرنے سے سمجھ آ سکتی ہے ، سوشل میڈیا پر اس قسم کی باتیں نہیں کی جا سکتی ہیں ، اس کے لیے میں آپ کو ایک چھوٹی سی مثال دوں گا کہ ایک دفعہ مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہوا تو پہلی چوکی پر ایک با ریش پولیس والا کھڑا تھا ، مجھے دیکھ کر کہنے لگا کہ آپ یہاں کیسے آئے ہیں ، تو میں نے کہا کہ آپ نے وطن عزیز پاکستان کے دفاع کے لیے اتنا بڑا منصوبہ بنا دیا ہے ، ہم اس کو دیکھیں بھی نہیں ، اس نے وطن عزیز پاکستان میں ایک معروف دینی اور عسکری قائد کا نام لے کر کہا کہ آپ کا تعلق ان کے ساتھ کیا ہے ، یہاں سے آپ اندازہ کریں ، حاصل کلام یہ ہے کہ دیکھنا چاہیے کہ وہاں پر کس نیت سے انسان جاتا ہے ، تب گناہ اور ثواب ، جائز اور ناجائز کا فیصلہ ہوگا ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ

سائل :
شیخ محترم اس بندے کا جانے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ میں اس لیے جا رہا ہوں کہ یہاں دفاعی نظام کا کوئی کام کیا گیا ہے ، بلکہ وہ بس دیکھنے کے لیے سیر و تفریح کیلئے جاتا ہے تو پھر اس کا جانا کیسا ہوگا ؟
جواب :
اگر یہ ارادہ ہے تو مندرجہ ذیل مضمون بہترین رہے گا ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ

سلف صالحین غیر مسلموں کی عبادت گاہوں پر جانے سے منع کرتے تھے۔ وہاں اللہ تعالی کا غیض و غضب نازل ہوتا ہے ، اس جگہ سے بری جگہ کون سی ہو گی جہاں اللہ تعالی کے ساتھ شرک کیا جا رہا ہو، اس کے علاوہ غیر کو پکارا جا رہا ہوں، اس کے غصے کو دعوت دی جا رہی ہو۔

“تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرۡنَ مِنۡهُ وَتَـنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَتَخِرُّ الۡجِبَالُ هَدًّا” [سورة مريم : 90]

«آسمان قریب ہیں کہ اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ڈھے کر گر پڑیں»
ایسی جگہوں پر سیر و تفریح کے لیے جانا یا عبرت کے لیے جانا دونوں اعتبار سے ہی درست نہیں ، اگر کوئی کسی کام جائے یا گزرے تو اس کی تشہیر نہ کرے ، ہمارا یقین و اعتقاد ہے کہ جہاں اللہ تعالی کے ساتھ شرک کا اڈا ہو وہ غضبِ الہی کو دعوت دینے والی جگہ ہے ۔

فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ