سوال (4340)

میرا نام احمد ہے، ہم میاں بیوی آپس میں خوش ہیں، لیکن ہمارے گھر والے اس شادی سے راضی نہیں ہیں، لہذا ان کے دباؤ میں آ کر میں نے اپنی بیوی کو طلاق کا پہلا نوٹس 24۔10۔24 کو بھیجا، لیکن پھر پندرہ بیس دن بعد اس سے رجوع کر لیا، دوسرا طلاق کا نوٹس 03۔ 12۔ 24 کو بھیجا، لیکن اس دوران ہم آپس میں ملتے بھی رہے، پھر میری بیوی نے مجھے بتایا کہ جب ہم پہلی طلاق کے بعد ملے تھے تو وہ اس سے حاملہ ہو گئی تھی، اسی دوران میں طلاق کا تیسرا نوٹس بھی دستخط وغیرہ کرکے تیار کروا چکا تھا، لیکن جب مجھے پتہ چلا کہ میری بیوی حاملہ ہے، تو میں نے تیسرا نوٹس نہیں بھجوایا۔
اسی دوران ہمارے گھر والوں کو بھی معاملات کا علم ہو گیا، اور پھر گھر میں بھی صلح کی بات چلنا شروع ہو گئی، اس وقت وہ بھی چاہتے ہیں کہ ہماری آپس میں صلح ہو جائے، تو کیا ہم رجوع کر سکتے ہیں، کیونکہ تیسرا نوٹس ابھی میں نے نہیں بھیجا اور منہ سے طلاق بھی ادا نہیں کی۔ برائے مہربانی شرعی رہنمائی فرمائیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
صورتِ مسؤلہ میں دو طلاقیں بالاتفاق واقع ہوچکی ہیں، لیکن تیسری طلاق کا نوٹس جو اس نے لکھ کر ابھی اپنے پاس رکھا ہے، اس کے متعلق علمائے کرام کا اختلاف ہے، جمہور فقہائے کرام کے نزدیک صرف لکھنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، جب تک طلاق دینے کی نیت نہ ہو یا طلاق کا نوٹس بھیج نہ دیا جائے۔ اس شخص نے زبان سے طلاق کا لفظ بھی ادا نہیں کیا اور طلاق کا نوٹس بھی نہیں بھیجا۔
اور اس کی باتوں اور تحریر سے بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس نے طلاق کا نوٹس لکھ تو لیا تھا، لیکن ابھی طلاق کی نیت نہیں تھی، نیت اس نے اس وقت کرنی تھی، جب وہ یہ نوٹس بھیجتا۔
لہذا یہ شخص جس طرح حالت بیان کر رہا ہے، اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ابھی طلاق کی نیت نہیں تھی۔ مزید اس سے دوبارہ پوچھ لیا جائے۔ اگر تو طلاق کا نوٹس لکھتے وقت اسکی طلاق کی نیت تھی تو انکی تیسری طلاق بھی واقع ہوچکی ہے، لیکن اگر طلاق کا نوٹس لکھتے وقت اسکی طلاق کی نیت نہیں تھی، تو انکی تیسری طلاق واقع نہیں ہوئی، لیکن پہلی دو طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، پہلی طلاق کے بعد رجوع اور ہمبستری کی وجہ سے عورت حاملہ ہوگئی تھی، اس لیے اسکی عدت وضع حمل ہے، اب حمل کے دوران یہ رجوع کر سکتے ہیں، رجوع کے بعد اگر کسی موقع پر پھر طلاق دے دی، تو نکاح ختم ہو جائے گا۔ اور تینوں طلاقیں مکمل ہوجائیں گی۔
اگر آخرى ( يعنى تيسرى ) طلاق ہو جائے تو پھر عدت ختم ہونے کا انتظار کیے بغیر، وہ عورت مرد كے ليے حرام ہو جاتى ہے، اور رجوع کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔ الا كہ اس سےکوئی دوسرا شخص گھر بسانے کی نیت سے شرعى نكاح كرے، اور پھر وہ شخص فوت ہوجائے، یا پھر ویسے طلاق دے دے، تو ایسی صورت میں عدت گزرنے کے بعد پہلا مرد اس عورت سے نکاح کرسکتا ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ} [البقرة: 230]

اور اگر وہ اسے ( تيسرى ) طلاق دے دے، تو وہ اس كے بعد اس كے ليے اس وقت تک حلال نہيں ہو گى جب تک كہ وہ كسى دوسرے شخص سے نكاح نہ كر لے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الولی خاں حقانی حفظہ اللہ