سوال (2038)

“فَاَقۡبَلَتِ امۡرَاَتُهٗ فِىۡ صَرَّةٍ فَصَكَّتۡ وَجۡهَهَا وَقَالَتۡ عَجُوۡزٌ عَقِيۡمٌ” [سورة الذاريات : 29]

کیا اس آیت سے ماتم کی دلیل لینا صحیح ہے؟

جواب

یہ بدبخت قوم ہے، جن کا سرے سے قرآن کریم پر ایمان نہیں ہے، مگر اپنے باطل نظریہ و عمل کے لیے قرآن کریم سے باطل استدلال کرتے ہیں۔
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا انہوں نے ہی نوحہ کرنے والوں کے بارے میں فرمایا:

“لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ” [صحیح البخاری، کتاب الجنائز: 1294]

«جو اپنے چہرے کو پیٹے، گریبان چاک کرے اور جاہلیت کی باتیں کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے»
نوحہ کی حرمت اور اس پر وعید پر کئی ایک صحیح احادیث موجود ہیں، تو قرآن کریم کی کسی آیت کی تفسیر و تعبیر اور مراد و معنی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ہے، حتی کہ اہل بیت میں سے کسی بھی صحابہ جیسے سیدنا علی، سیدنا عبد الله بن عباس رضی الله عنھما نے اس سے مراد ماتم، نوحہ کرنا نہیں لیا ہے، حتی امام جعفر صادق، امام باقر رحمھما الله تعالی سے بھی اس آیت کی یہ باطل مراد یا اس کے جواز و فضیلت پر کچھ مروی نہیں ہے۔
یاد رکھیں نوحہ وماتم کا دین اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے، حتی کہ میت پر سوگ کی حد زیادہ سے زیادہ بیوی کے لیے 4 ماہ دس دن اور عام خواتین کے لیے کسی فوت ہونے والے پر تین دن رات ہے بیان ہوئی ہے۔
سیدنا حسین ابن علی رضی الله عنہ کی شہادت کی آڑ میں جو کچھ کیا جاتا ہے، سب باطل اور خلاف شرع ہے۔
شہادت اگرچہ ایک مظلومانہ طریقے سے ہوئی مگر شہادت تو عظمت اور شان والا عمل ہے، وہ تو رب العالمین کی جنتوں میں اعزازت کے ساتھ اکرامات کے ساتھ زندہ ہیں، لہذا ان کی شہادت پر اہل ایمان کو رشک ہے۔
غم صرف ان کے ساتھ ظلم کیے جانے کے حوالے سے ہے کہ ظالموں نے ان کے مرتبہ، مقام نسبت شان و عظمت کو نہیں دیکھا ہے اور عزت و تکریم کا خیال نہیں رکھا ہے اور انہیں شہید کر دیا گیا ہے اور یہ سب کرنے والے ہی ماتم کر کے سزا دنیا بھگت رہے ہیں، آخرت کی سزا ان ظالموں کی منتظر ہے۔
یہ لوگ امت کے خبیث ترین اور گمراہ ترین لوگ ہیں، جن کا اہل بیت سے دور ، دور تک کا کوئی تعلق نہیں ہے، ان کے عقائد ونظریات وایمان وعبادات ہرگز اہل بیت رضی الله عنھم اجمعین کے ساتھ موافقت نہیں رکھتے ہیں، ان کے پاس وہ قرآن کریم، دین اسلام، ایمان عقیدہ، نماز اور عبادات نہیں ہے، جو سیدنا حسین ابن علی اہل بیت کے پاس تھے، کاش کہ عام لوگ اس حقیقت کو سمجھیں ، اس آیت سے استدلال باطل ہے۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ نے تو تعجب و خوشی کے ساتھ اپنے چہرے پر ہاتھ مارا نہ کہ کسی کی موت پر بھلا اس کا تمہارے باطل اور خبیث ماتم کے ساتھ کیا تعلق ہے۔
تم تو قرآن کریم کے محرف و تبدیل ہونے کے قائل ہو ، دشمنان صحابہ کرام اور درحقیقت دشمنان اسلام اور اہل بیت تک کے دشمن ہو پس اہل ایمان ان کے مکر وفریب سے بچ کر رہیں۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

فائدہ کے لیے یہاں اس آیت کی تفسیر مفسر قرآن فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ کی “تفسیر القرآن” سے ذکر کرتے ہیں۔

“فَاَقۡبَلَتِ امۡرَاَتُهٗ فِىۡ صَرَّةٍ فَصَكَّتۡ وَجۡهَهَا وَقَالَتۡ عَجُوۡزٌ عَقِيۡمٌ” [سورة الذاريات : 29]

“تو اس کی بیوی چیختی ہوئی آگے بڑھی، پس اس نے اپنا چہرہ پیٹ لیا اور اس نے کہا بوڑھی بانجھ”

تفسیر:
(1) : { فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِيْ صَرَّةٍ …:’’ صَرَّةٍ ‘‘} صیحہ، چیخ۔ {’’صَرَّ يَصُرُّ‘‘ (ن) ’’صَرِيْرُ الْقَلَمِ‘‘} (قلم کی آواز) اور {’’صَرِيْرُ الْبَابِ‘‘ } (دروازے کی آواز) بھی اسی سے مشتق ہے۔ {’’ صَرَّةٍ ‘‘} میں تنوین تعظیم کی ہے : {’’أَيْ صَيْحَةٌ عَظِيْمَةٌ وَ رَنَّةٌ۔‘‘} ابن کثیر نے فرمایا : {’’ صَرَّةٍ ‘‘} سے مراد اس کا {’’ يٰوَيْلَتٰۤي ‘‘} کہنا ہے جو سورۂ ہود(۷۲) میں مذکور ہے، یہاں اس کا قول مختصر ذکر فرمایا ہے۔ {’’ عَجُوْزٌ عَقِيْمٌ ‘‘ ’’أَيْ أَنَا عَجُوْزٌ عَقِيْمٌ‘‘}

یعنی یہ بشارت سن کر اپنی عمر کو دیکھتے ہوئے حیرت و مسرت کے جذبات سے بے اختیار چیختی ہوئی فرشتوں کی طرف آئی۔

(2) : { فَصَكَّتْ وَجْهَهَا: ’’صَكَّ يَصُكُّ صَكًّا‘‘}

(ن) چہرے پر زور سے ہاتھ مارنا، جیسا کہ عورتیں تعجب کے وقت کرتی ہیں۔ یعنی تعجب سے چہرے کو پیٹ کر کہنے لگی کہ میں تو بوڑھی ہوں، جوانی کی عمر سے بانجھ ہوں، اب خاک بچہ جنوں گی۔
(3) : بعض لوگوں نے اس سے ماتم اور سینہ کوبی کی دلیل کشید کی ہے، مگر یہ نہیں سوچا کہ کیا خوشی کی خبر پر بھی ماتم ہوتا ہے؟