سوال (4214)
مرزا محمد علی کی ایک ویڈیو کلپ میں بتا رہے ہیں کہ شیخ صفی الرحمن مبارک پوری نے بلوغ المرام کی شرح میں لکھا ہے کہ سیدنا امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر خروج کیا تھا، سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کے قاتل ہیں، اس کے علاؤہ بتا رہے ہیں کہ شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے بلوغ المرام کا اردو ترجمہ کیا ہے؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔
جواب
سخت زبان استعمال کرنا مناسب نہیں، لیکن اس کلپ میں ایک اللہ کے بزرگ اور ولی کے بارے میں جس قسم کی بیہودہ زبان استعمال کی گئی ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے میں یہ ضرور کہوں گا کہ اس جہلمی کتے کو ویسے ہی بھونکنے کی عادت ہے، فضول میں بکتا رہتا ہے، جب اس کی یہ ویڈیو آئی تھی تو بہت سارے لوگوں نے اس کا ویڈیو اور تحریر کی شکل میں جواب دے دیا تھا.
یہاں اب دوبارہ بات آئی ہے تو میں بھی کچھ حصہ ڈال دیتا ہوں. اس ویڈیو میں اس جہلمی مردود نے درج ذیل غلط بیانیاں کی ہیں:
1۔ مولانا ارشاد الحق اثری صاحب نے بلوغ المرام کا ترجمہ نہیں کیا، وہ کوئی اور عالم دین ہیں.
2۔ مولانا صفی الرحمن نے حدیث کی شرح میں تعلیق لگائی ہے، اس کی ابتدا میں صراحت ہے کہ انہوں نے کسی کے قول کی حکایت اپنے الفاظ میں کی ہے، اپنا موقف بیان نہیں کیا، ان کا موقف بالکل آخر میں ہے کہ ان معاملات میں گفتگو سے پرہیز کرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان رافضیت یا ناصبیت کی ہلاکت کا شکار ہو جائے۔ جاہلوں نے ویڈیو کے اندر اس کا ترجمہ کروا کر تو لگا دیا ہے، لیکن ترجمہ کرنے کے باوجود اتنا غور کرنے کی زحمت نہیں ہوئی کہ مصنف کے اپنے موقف اور اس کے نقل کردہ موقف میں فرق کو سمجھ سکیں!
3۔ جہاں تک اردو ترجمے کی بات ہے، تو اس میں تحریف کا الزام دینے کی بجائے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مترجم نے حدیث پر تعلیق کو ’حاصل کلام’ کا نام دیا ہے، نہ کہ اسے ہوبہو ترجمہ کا دعوی کیا ہے، دوسری بات مولانا صفی الرحمن صاحب باقاعدہ دار السلام کی ٹیم کا حصہ تھے، انہیں اگر کوئی اعتراض ہوتا تو وہ ضرور اس کو تبدیل کروا دیتے، تحقیق و تصنیف میں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ انسان ایک چیز کو عربی میں کسی ایک انداز سے لکھے اور اسی موقف کو اردو میں مختلف انداز سے تعبیر کرے. اس پر اتنا اچھل کود کرنے کی بجائے مسئلے کو سمجھ لینا چاہیے، بالخصوص ان لوگوں کو جن کا ’علمی و کتابی’ ہونے کا دعوی ہے!
بہر صورت اس پر اعتراض کرنا بھی ہو تو کتاب کے مترجم مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نہیں، بلکہ ایک اور بزرگ مولانا عبد الوکیل علوی رحمہ اللہ ہیں۔
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
1: اسحاق جھالوی مرتد ہوگیا تھا، ختم نبوت کا منکر تھا۔
2: شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں مرزا جہلمی رافضی، کا جھوٹا الزام یے کہ شیخ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں غلط(توہین آمیز) الفاظ استعمال کیے۔ یہ فقط اس دجال کا جھوٹا الزام ہے۔
3: سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو باغیوں یعنی خارجیوں نے شہید کیا ناکہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ نے۔
4: سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے گروہ کو باغی قرار دینا حدیث کی تحریف ہے۔ فئة الباغيه، والی حدیث میں باغی سے مراد خارجی ہیں۔
یہ بدلائل دعوی ہے۔ والحمدللہ۔ رافضی جہلمی کے مقلدین “ریفرنس٫ دلائل” کا جھوٹا دعوی کرنے والے اہلحدیث کے اس موقف کے رد میں دلائل پیش کریں ہم جواب دیں گے ان شاءاللہ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ
اسحاق جھالوی شدید گمراہ تھا، لیکن اس کے ارتداد والی بات غالباً علماء اہلِ حدیث میں سے کسی نے بھی نہیں کی۔ نقف ما وقف عليه العلماء ولا نتجرأ أكثر من ذلك.
فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ
یہ گمراہ شخص منہج سلف صالحین سے ہٹا ہوا تھا ،صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کے بارے گمراہی پر مبنی موقف رکھتا تھا اس لئے کبار علماء أهل الحديث اس سے اعلان براءت کر چکے ہیں۔ ارتداد والی بات نہیں کرنی چاہیے ہے۔ بارك الله فيكم وعافاكم
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ