کیا تدبرِ قرآن بلا حدود و قیود کھلا میدان ہے؟ (1)

دنیا میں موجود تمام علوم کے بارے میں بنیادی بات جو ہر ابتدائی طالب علم جانتا ہے اور ہر ذی شعور فرد کے لیے معقولیت کا درجہ بھی رکھتی ہے کہ ہر علم اپنی ماہیت و وضع میں اُصول و ضوابط اور حدود و قیود کا پابند ہوتا ہے ۔
ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ کسی علم یا شعبے کے بارے میں ظن و تخمین کی بنیاد پر فیصلہ کر لیا جائے کہ اس میں بلا قواعد و قوانین کچھ بھی پیش کیا جا سکتا ہے، کسی بھی علمی یا فنی مجال میں اپنی مرضی کی باتیں داخل کی جا سکتی ہیں، جن کی اُس علم میں کوئی بنیاد ہی نہ ہو ۔
جب دنیاوی علوم کے متعلق یہ بات غیر معقولیت کا درجہ رکھتی ہے تو علومِ شرعیہ کہ جن کا مصدر ہی خالقِ کائنات کی طرف سے ہے، ان میں یہ تصور ہی محال ہے کہ تمام قاعدے و ضابطے بالائے طاق رکھ کر کوئی کچھ بھی اِن میں داخل کر سکتا ہے ۔
پھر جب عموماً شرعی علوم کے حوالے سے یہ بات محال ہے تو تمام علوم میں اَشرف و اَعلی علم، جس کے بارے میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے؛

﴿لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ﴾

’’جس کے پاس باطل پھٹک بھی نہیں سکتا نہ اس کے آگے سے اور نہ اس کے پیچھے سے، یہ ہے ہی حکمتوں والے ،خوبیوں والے (اللہ) کی طرف سے نازل کردہ۔‘‘ (فصلت : ٤٢)
اس میں تو یہ گمان بھی درجۂ معقولیت سے نہایت گرا ہوا ہے کہ یہاں کسی بھی اُصول وضابطے کی پروا کیے بغیر کوئی جو چاہے، جیسے چاہے کہہ، لکھ ڈالے ۔
اسی تناظر میں کسی ناول نگار کا ’’تدبرِ قرآن‘‘ زیرِ بحث ہے، اُن کی نیک دلی اور کوششِ اصلاح کی نیت پر شک کیے بغیر فکر کی غلطی کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اہلِ علم کا فریضہ بھی یہی ہے کہ جہاں دینِ الہی میں خرابی کرنے والوں کی خرابی دیکھیں، اس پر متنبہ کریں، چاہے وہ جان بوجھ کر ہو رہا ہو یا نیک نیتی سے بنا سمجھے۔
ذیل میں اس فکر کی غلطی چند نکات میں پیشِ خدمت ہے؛
1۔ تدبرِ قرآن کے متعلق بنیادی غلطی جو یہاں پر کی جا رہی ہے وہ یہ کہ ہم تفسیرِ قرآن تو کر ہی نہیں رہے بلکہ ہم تو تدبرِ قرآن کی سعی میں مشغول ہیں، تفسیر کا بھلا تدبر سے کیا لینا دینا۔
عرض یہ ہے کہ یہ دعویٰ اپنی اَصل کے اعتبار سے ہی نہایت غیر معقول ہے۔ اس کی سطحیت کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے ایک عامیانہ مثال دیکھیے ؛ کوئی شخص آپریشن تھیٹر میں داخل ہو اور سامنے کسی جاہل و گنوار کو ہاتھ میں اَوزار و آلات تھامے آپریشن کرنے میں مشغول پا کر اسے پوچھے کہ آپ نے کبھی میڈیکل کالج کا منہ تک نہیں دیکھا، پھر کیسے آپریشن کر رہے ہیں۔ وہ بے نیازی سے جواب دے : ’’میں ڈاکٹر ہوں ہی نہیں اور نہ ہی یہ میری فیلڈ ہے، نہ مجھے ڈاکٹری کا کوئی شوق ہے، بلکہ میں تو اپنی خداداد صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے اور اپنے فہم وشعور کو بروئے کار لا کر نئی چیزیں سیکھنے کی کوشش میں آپریشن کرتا ہوں۔‘‘
کیا اس بات میں کوئی شک ہے کہ یہ جواب کس قدر احمقانہ اور سوقیانہ ہے؟
اب یہی مثال یہاں بنائے گئے اُصول کی ہے کہ ہم قرآن مجید کی تفسیر تو کر ہی نہیں رہے، نہ ہم مفسر ہیں اور نہ ہی یہ ہمارے شوق کا میدان ہے، ہم تو بس عطائے الہی سے ملی صلاحیتوں کے بل بوتے پر غور وفکر کر کے تدبر کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
حالانکہ ’’تدبرِ قرآن‘‘ قرآن فہمی کا ایک مرحلہ ہے جو قرآنِ مجید کے متعلقہ علومِ آلہ سیکھنے اور تفسیرِ قرآن میں اچھا خاصا ملکہ پیدا کر لینے کے بعد آتا ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک میڈیکل سٹوڈنٹ کورس ورک کر کے اس پر باقاعدہ پریکٹس کے بعد آپریشن تھیٹر جانے کے قابل ہوتا ہے۔
جب تک کسی کے پاس قرآن مجید کے متعلقہ بنیادی علوم پر مہارت نہیں ہو گی وہ تدبرِ قرآن کے مرحلے میں چھلانگ لگا کر خود بھی غرق ہو گا اور دوسروں کے لیے بھی باعثِ ہلاکت ہوگا۔
یہ بدیہی سی بات ہے، جس پر مسلّماتِ عقل واضح طور پر دلالت کرتے ہیں۔

کیا تدبرِ قرآن بلا حدود وقیود کھلا میدان ہے (2)

ڈکشنری کی بنیاد پر تدبر:
2۔ دوسرا قاعدہ جو اِس فکر کی اِختراع ہے وہ یہ کہ تدبرِ قرآن کے لیے کسی بڑے مکتبے یا لائبریری کی ضرورت نہیں اور نہ ہی تفسیری کتب میں مغز ماری لازمی ہے بلکہ عربی کی کوئی اچھی سے ڈکشنری لیں اور اس میں معانی دیکھ کر جو معنی درست لگے اسے فٹ کر لیں اور اُس کے مطابق تدبر کا آغاز کر دیں۔
یہ ضابطہ بھی عقل و دانش کے ساتھ ساتھ بنیادی لُغویات سے جہالت پر دلالت کرتا ہے، اس کی تفہیم کے لیے بھی ایک عامیانہ مثال دیکھیے ؛
اردو زبان سے لا علم کسی شخص کے سامنے اُردو کا جملہ آئے؛
’’سونا ہزار نعمتوں کی ایک نعمت ہے۔‘‘
وہ فورا اردو ڈکشنری میں جا کر دو لفظوں سونا اور نعمت کا معنی تلاش کرنا شروع کر دے۔
اسے معلوم ہو گا کہ اردو میں ’’سونا‘‘ مختلف سیاق کی صورتوں میں درج ذیل معانی میں استعمال ہوتا ہے؛
نیند آ جانا۔ مَر کر دفن ہو جانا۔ سُن ہو جانا۔ غفلت و لاپرواہی کا شکار ہو جانا۔
بلکہ بعض دفعہ سیاق میں ہم بستری و مباشرت کے مفہوم میں بھی مستعمل ملتا ہے۔
اسی طرح سونا بمعنی گولڈ۔
پھر جب لفظ نعمت کی طرف لوٹے گا تو درج ذیل معانی میں مستعمل پائے گا :
مال ودولت۔ ناز، لاڈ۔ لذیذ چیز۔
اب وہ بنا کسی قاعدے کلیے کے ایک معنی اُٹھائے اور بنا سیاق و سباق دیکھے چسپاں کر دے ۔
لہذا اب وہ معنی کرے؛
غفلت و لاپرواہی کا شکار ہو جانا ہزار ناز ولاڈ میں سے ایک لاڈ ہے۔
بے حس و حرکت ہو جانا ہزار مال و دولت کی ایک دولت ہے۔
مر کر دفن ہو جانا بڑی لذیذ چیز ہے۔
اگر کوئی زیادہ عقل مند تدبر کرنے والا ہوا تو نیند کے معانی میں سے ہم بستری و مباشرت کا معنی اور نعمت کے معانی میں سے لذیذ چیز اٹھا کر تدبرِ کلام کے نئے دریچے کھول دے گا ۔
بتائیے! کسی اردو زبان سے لا علم بندے کا یہ ’’تدبر‘‘ پورے کلام کے ساتھ کھلواڑ نہیں بن جائے گا؟ کہنے والا کیا کہنا چاہتا ہے اور اِس نے ڈکشنری پکڑ کر کیا معنی بنا دیا!!!
یہی مثال عربی زبان کی ہے، بلکہ قرآن مجید سے ہی اس کی کئی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں، مثلا؛
اللہ تعالی جنت کے متعلق فرماتے ہیں :

﴿فِيهَا عَيْنٌ جَارِيَةٌ﴾.

’’اس میں ایک چشمہ بہہ رہا ہوگا۔‘‘
اب کوئی ڈکشنری اٹھائے اور وہاں ’’عین‘‘ کے مختلف معانی دیکھے:
آنکھ۔ چشمہ۔ جاسوس۔
اس کا ترجمہ کچھ یوں نکلے گا :
’’جنت میں بہنے والی آنکھ ہوگی۔‘‘ یا
’’جنت میں چلنے پھرنے والے جاسوس ہوں گے۔‘‘
پھر اس ترجمے کی بنیاد پر ’’تدبر‘‘ کیا جائے گا کہ جنت میں آنکھیں بہنے کا رومانوی پہلو کیا ہے یا جاسوسوں کی چہل پہل کس قدر خوبصورت منظر کی عکاسی ہے۔
تدبرِ قرآن میں اسی طرح کی من مانیوں کا بند باندھنے کے لیے امام المفسرين، امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ تدبرِ قرآن میں علم المعانی اور کلامِ عرب کی معرفت ہونا لازمی شرط قرار دیتے ہیں۔ [ابن جرير الطبري ومنهجيته في التدبر| الأوراق العلمية لمؤتمر تدبر القرآن،ص :١٥٩]
قرآن مجید کے معانی کے ساتھ اِس بے دردی کا رویہ کس قدر عجیب ہے!!! اسے ایک طالب علم ہی سمجھ سکتا ہے۔

حافظ محمد طاھر

یہ بھی پڑھیں: ختم نبوت ریڈرز کلب کی ایک عمدہ روایت