سوال (2312)

ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں، ایک ماہ کے بعد ایک طلاق اور دوسرے ماہ کے بعد دوسری اور تیسرے ماہ کے بعد تیسری طلاق دی ہے تو 90 دن ہونے میں پانچ دن باقی ہیں، اب ان کی صلح کرنے کا ذہن ہے، کیا ان کی اصلاح ہوگی یا نہیں؟ کیا اس کے متعلق آپ کی یونین کونسل والے کہہ رہے ہیں آپ کی صلح ہو جائے گی؟

جواب

سوال جو مجھے سمجھ آیا ہے اس کے مطابق ہر ماہ الگ الگ طلاق دی گئی ہے اور اب تیسری طلاق دی جا چکی ہے جو واقع ہوچکی ہے، لہذا راجح قول کے مطابق اب وہ میاں بیوی نہیں رہے اور ان کی صلح نہیں ہو سکتی
خاوند کہیں اور نکاح کرے، بیوی کہیں اور نکاح کرے، اس کے بعد اگر اس عورت کا دوسرا خاوند فوت ہوجائے یا وہ اپنی مرضی سے کبھی طلاق دے دے تو ان کا آپس میں نکاح ہو سکے گا، یاد رہے کہ مروجہ حلالہ کی نیت سے عارضی نکاح و طلاق جائز نہیں ہے۔
پہلے پچاسی دن ان کو یاد نہیں رہا اب پانچ کہاں سے رہ گئے ہیں جو ان کو پانچ دن یاد آ گئے ہیں، اگر تو تیسری طلاق نہ ہوتی تو پھر تو رجوع یا تین حیض کے بعد نیا نکاح ہو سکتا تھا، لیکن چونکہ اب تینوں طلاقیں میاں نے دے دی ہیں تو اب وہ مہلت ختم ہو گئی ہے،
یونین کونسل میں تو عام لوگ ہوتے ہیں جن کے پاس قرآن و حدیث کا علم نہیں ہوتا ہے۔

فضیلۃ العالم ڈاکٹر ثناء اللہ فاروقی حفظہ اللہ

ایک موقع پر ایک طلاق دے، اگر بیوی کو نہیں رکھنا تو عدت گزر جانے پر عورت اس کے نکاح سے نکل جائے گی۔ اس پر سب کا اتفاق ہے، ہمارے ہاں کچھ اہل علم کا موقف ہے ہر تین طہروں میں تین طلاقیں دینا جائز ہے، ان کے مطابق تینوں طلاقیں ہو چکی ہیں، جب کہ دو سرے اہل علم کا موقف ہے، ایک موقع پر ایک طلاق دی جائے، اور پھر اللہ کا حکم ہے عورت عدت گزارے یہ شرعی حکم ہے، سورہ طلاق میں دیا گیا ہے۔ عدت پوری ہو گی تو اس کی بیوی نہیں رہے گی، دوسری طلاق تب ہو گی جب رجوع کر کے طلاق دے گا۔ دوران عدت طلاق دینا جائز نہیں، کیونکہ عدت میں فساد واقع ہوتا ہے کہ کس طلاق کی عورت پوری کرے؟
اس موقف کی تائید اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’جو شخص طلاق دینا چاہے، جو اصل طلاق ہے، وہ عورت کو ایک طلاق دے، پھر اسے اس کے حال پر چھوڑ دے یہاں تک کہ اسے تین حیض آ جائیں۔‘‘
[مصنف ابن أبي شیبۃ، الطلاق، باب ما یستحب من طلاق السنۃ: 4؍5، ح : ۱۸۰۳۶]
اس لیے ہمارا رحجان اس طرف ہے کہ یہ ایک رجعی طلاق واقع ہوئی ہے، اگر عدت تین حیض مکمل نہیں ہوئے تو رجوع ہو سکتا ہے، اگر عدت مکمل ہو گئی ہے تو تجدید نکاح ہو سکتا ہے۔ یاد رہے عدت نوے دن نہیں شرعاً غیر حاملہ کی عدت تین حیض ہوتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ