سوال (2397)
ایک یہودی اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے، توحید والا بھی ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو نہیں مانتا تو وہ جنت میں جائے گا؟
جواب
دین اسلام قبول کیے بغیر نہ کوئی اور دین قبول ہے نہ ہی کوئی عمل۔
چند دلائل ملاحظہ فرمائیں:
ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
اور جو اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں سے ہوگا۔ [آل عمران: 85]
اس آیت کی تفسیر میں شیخ القرآن و التفسیر حافظ عبدالسلام بن محمد رحمه الله تعالى لکھتے ہیں:
یعنی محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مبعوث ہو جانے کے بعد جو شخص آپ کی فرماں برداری اور اطاعت کا راستہ چھوڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کرے گا، یا کسی پہلے راستے پر چلتا رہے گا وہ چاہے کتنا توحید پرست کیوں نہ ہو اور پچھلے انبیاء پر ایمان رکھنے والا ہو، اگر وہ محمد صلی الله علیہ وسلم پر ایمان نہیں رکھتا تو اس کی دین داری الله تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہو گی اور وہ آخرت میں نامراد و ناکام ہو گا۔ واضح رہے کہ اگرچہ تمام انبیاء کا دین اسلام تھا، مگر آخری پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد اسلام صرف آپ کی پیروی کا نام ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں بھی اب اسلام سے یہی مراد ہوتا ہے، اس معنی میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
“مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ” [مسلم، الأقضیة باب نقض الأحکام الباطلة…: 18؍1718،
عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا ] جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا امر نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔
[تفسیر القرآن الکریم،تفسیر سورہ آل عمران: 85]
اب اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے حدیث مبارک ملاحظہ فرمائیں:
ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻋﻦ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: ﻭاﻟﺬﻱ ﻧﻔﺲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻴﺪﻩ، ﻻ ﻳﺴﻤﻊ ﺑﻲ ﺃﺣﺪ ﻣﻦ ﻫﺬﻩ اﻷﻣﺔ ﻳﻬﻮﺩﻱ، ﻭﻻ ﻧﺼﺮاﻧﻲ، ﺛﻢ ﻳﻤﻮﺕ ﻭﻟﻢ ﻳﺆﻣﻦ ﺑﺎﻟﺬﻱ ﺃﺭﺳﻠﺖ ﺑﻪ، ﺇﻻ ﻛﺎﻥ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻟﻨﺎﺭ
سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی الله علیہ وسلم کی جان ہے اس امت میں سے کوئی ایک بھی یہودی یا نصرانی میرے بارے میں سنے اور اس چیز پر ایمان نہ لائے جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے اور وہ کفر پر فوت ہو جائے تو وہ آگ والوں میں سے ہو گا
[صحیح مسلم: 153 ﺑﺎﺏ ﻭﺟﻮﺏ ﺇﻳﻤﺎﻥ ﺃﻫﻞ اﻟﻜﺘﺎﺏ ﺑﺮﺳﺎﻟﺔ اﻹﺳﻼﻡ، مسند أحمد بن حنبل 8203]
اس حدیث مبارک پر امام ابو عوانہ نے یون عنوان قائم کیا ہے:
بيان ﺛﻮاﺏ ﻣﻦ ﺁﻣﻦ ﺑﻤﺤﻤﺪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ اﻟﻜﺘﺎﺏ، ﻭﺃﻥ ﻣﻦ ﺃﺩﺭﻙ ﻣﻨﻬﻢ ﻣﺤﻤﺪا ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻭ ﺳﻤﻊ ﺑﻪ ﻓﻠﻢ ﻳﺆﻣﻦ ﺑﻪ ﻭﺑﻤﺎ ﺃﺭﺳﻞ ﺑﻪ ﻛﺎﻥ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ اﻟﻨﺎﺭ، ﻭﺃﻥ ﻋﻴﺴﻰ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺴﻼﻡ ﺇﺫا ﻧﺰﻝ ﻳﺤﻜﻢ ﺑﻜﺘﺎﺏ اﻟﻠﻪ ﻭﺳﻨﺔ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻭﻳﻜﻮﻥ ﺇﻣﺎﻣﻬﻢ ﻣﻦ ﺃﻣﺔ ﻣﺤﻤﺪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ
[صحیح أبی عوانه:1/ 96 ، 307 ،308]
امام ابن مندہ نے یوں عنوان قائم کیا ہے:
ﺫﻛﺮ ﻭﺟﻮﺏ اﻹﻳﻤﺎﻥ ﻋﻠﻰ ﻛﻞ ﻣﻦ ﺳﻤﻊ ﺑﺎلنبي ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﻦ ﺃﻫﻞ اﻟﻜﺘﺎبين، ﻭاﻹﻗﺮاﺭ ﺑﻤﺎ ﺃﺭﺳﻞ ﺑﻪ ﻭﺟﺎء ﺑﻪ ﻋﻦ اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ
[الإيمان لابن منده: 1/ 508]
امام لللكائي نے یوں عنوان قائم کیا ہے:
ﺳﻴﺎﻕ ﻣﺎ ﺭﻭﻱ ﻋﻦ النبي ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻲ ﺃﻥ اﻟﻴﻬﻮﺩ ﻭاﻟﻨﺼﺎﺭﻯ ﺇﺫا ﻣﺎﺗﻮا ﻋﻠﻰ ﻏﻴﺮ ﻣﻠﺔ اﻹﺳﻼﻡ ﻳﺪﺧﻠﻮﻥ اﻟﻨﺎﺭ ﻗﺎﻝ اﻟﻠﻪ ﻋﺰ ﻭﺟﻞ: {ﻭﻣﻦ ﻳﻜﻔﺮ ﺑﻪ ﻣﻦ اﻷﺣﺰاﺏ ﻓﺎﻟﻨﺎﺭ ﻣﻮﻋﺪﻩ} [ ﻫﻮﺩ: 17] [شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة :6/ 1241]
ارشاد باری تعالی ہے:
أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِن قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ ۚ فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۚ إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ
تو کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل پر ہو اور ان کی طرف سے ایک گواہ اس کی تائید کر رہا ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب بھی جو امام اور رحمت تھی، یہ لوگ ان پر ایمان لاتے ہیں۔ اور گروہوں میں سے جو اس کا انکار کرے تو آگ ہی اس کے وعدے کی جگہ ہے۔ سو آپ اس کے بارے میں کسی شک میں نہ رہیں، یقیناً یہی آپ کے رب کی طرف سے حق ہے اور لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔[ھود: 17]
اسی آیت کی تفسیر میں امام نسائی اس حدیث کو لائے ہیں
ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻷﻋﻠﻰ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺧﺎﻟﺪ، ﻋﻦ ﺷﻌﺒﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺑﺸﺮ، ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ جبیر، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﻮﺳﻰ رضی الله عنه، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻻ ﻳﺴﻤﻊ ﺑﻲ ﺃﺣﺪ ﻣﻦ ﺃﻣﺘﻲ، ﺃﻭ ﻳﻬﻮﺩﻱ، ﺃﻭ ﻧﺼﺮاﻧﻲ، ﺛﻢ ﻻ ﻳﺆﻣﻦ ﺑﻲ ﺇﻻ ﺩﺧﻞ اﻟﻨﺎﺭ
[السنن الكبرى للنسائى: 11177 صحيح]
تو اس مختصر توضیح سے معلوم ہوا روئے زمین پر جو کوئی غیر مسلم بھی چاہے یہودی ہو یا نصرانی ،یا کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا جب تک وہ دین اسلام قبول نہیں کرتا وہ کسی اور مذہب باطلہ ومنسوخہ پر فوت ہوتا ہے تو اس کا مقام و انجام جہنم ہے۔
اور دین اسلام کلمہ توحید و رسالت کے خالص اقرار اور ان کے صحیح معنوں میں تقاضے پورے کرنے کا نام ہے۔ یعنی سیدنا محمد رسول صلی الله علیہ وسلم کی نبوت ورسالت پر ایمان لائے بغیر کسی کا کوئی دین اور ایمان نہیں ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻋﻦ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻧﻪ ﻗﺎﻝ: ﻭاﻟﺬﻱ ﻧﻔﺲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻴﺪﻩ، ﻻ ﻳﺴﻤﻊ ﺑﻲ ﺃﺣﺪ ﻣﻦ ﻫﺬﻩ اﻷﻣﺔ ﻳﻬﻮﺩﻱ، ﻭﻻ ﻧﺼﺮاﻧﻲ، ﺛﻢ ﻳﻤﻮﺕ ﻭﻟﻢ ﻳﺆﻣﻦ ﺑﺎﻟﺬﻱ ﺃﺭﺳﻠﺖ ﺑﻪ، ﺇﻻ ﻛﺎﻥ ﻣﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ اﻟﻨﺎﺭ
سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی الله علیہ وسلم کی جان ہے اس امت میں سے کوئی ایک بھی یہودی یا نصرانی میرے بارے میں سنے اور اس چیز پر ایمان نہ لائے جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے اور وہ کفر پر فوت ہو جائے تو وہ آگ والوں میں سے ہو گا۔
[صحیح مسلم: 153]
فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ