سلطنت عثمانیہ میں چھاپا خانے کی مخالفت یا ممانعت میں سرکاری سطح پر کوئی فرمان جاری نہیں کیا گیا۔ سلطان بایزید ثانی اور اس کے بیٹے سلیم اول کے جن فرامین کا، اعتراض کرنے والے ذکر کرتے ہیں، ان کی کوئی مستند تاریخی دلیل موجود نہیں ہے۔
البتہ پرنٹنگ پریس کے آغاز کے وقت سلطنت عثمانیہ میں مسلم معاشرے کی طرف سے اس سے ایک گونہ استغناء کا اظہار ضرور کیا گیا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلم معاشرہ ہاتھ کے ساتھ علم کی تدوین کو علم کی حفاظت کا زیادہ بہتر اور مستند ذریعہ خیال کرتا تھا۔ پھر مسلمانوں کے ہاں نقلِ علم کی صدیوں کی روایت کے زیر اثر کاتب حضرات بہت زیادہ تعداد میں موجود تھے جن کے ہوتے ہوئے مسلم معاشرے کو اس جدید ایجاد کی کچھ زیادہ افادیت بھی محسوس نہیں ہوئی۔ ایک یورپی سیاح کے مطابق اس دور میں صرف استنبول کے اندر اسی ہزار کاتب موجود تھے جب کہ استنبول کی کل آبادی صرف پانچ سے چھ لاکھ کے درمیان تھی۔
اسی طرح اس وقت کا مسلم معاشرہ ہاتھ سے لکھی کتاب کو زیادہ مستند سمجھتا تھا۔ جیسا کہ ایک دوسرے یورپی سیاح نے ذکر کیا ہے کہ استنبول میں میں نے دیکھا کہ ابن سینا کی مشہور طبی کتاب القانون مطبوع حالت میں بازار میں موجود تھی لیکن اس کی طرف کوئی خریدار آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا جب کہ یہی کتاب مخطوط کی شکل میں بے روک بک رہی تھی حالانکہ مطبوع کے مقابلے میں مخطوط مہنگی تھی۔
یہ درست ہے کہ اس وقت کے بعض علماء نے مصادر دین کو چھاپا خانے سے چھاپنے کی مخالفت کی تھی لیکن انہوں نے یہ روش مصادر دین کی پوری حفاظت اور احتیاط کے ساتھ نقل کے لیے اپنائی تھی۔ اس لیے نہیں کہ وہ اسے دینی کتب کی توہین سمجھتے تھے اور نہ ہی اس لیے کہ ان کے نزدیک چھاپا خانہ حرام کے درجے کی کوئی شے تھی۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ علم کے نقل کے لیے محدثین نے نقد و جرح کے جو پیمانے رائج کیے تھے، وہ پیمانے اس قدر عقلی اور ٹھوس تھے کہ علم حدیث کے علاوہ دیگر علوم و فنون کے نقل کے لیے بھی انہیں استعمال کیا جانے لگا۔ محدثین کے یہ تمام اصول سند کی جانچ پرکھ سے متعلق ہیں۔ چونکہ مطبوع کتاب کے اندر اگر کوئی لفظ غلطی سے یا جان بوجھ کر بدل دیا جائے تو عام طور پر اس کا پتا چلانا مشکل ہو سکتا ہے کہ یہ تبدیلی کس نے کی ہے یا کس سے ہوئی ہے خاص طور پر اس وقت جب یہ تبدیلی سینکڑوں کی تعداد میں چھپنے والے نسخوں میں سے صرف چند ایک میں کی گئی ہو۔ کیوں کہ اگر کسی چھاپا خانے سے ایک کتاب کے سینکڑوں نسخے چھاپے جائیں تو ہر ایک نسخے کو محقق یا عالم کے لیے پڑھنا اور اس کی توثیق کرنا ناممکن ہے لہذا اس میں تحریف (tampring) بہت آسان ہے۔ جب کہ مخطوط میں یہ پتا چلانا کچھ مشکل نہیں۔ کیوں کہ مخطوط کے آخر میں ناسخ اپنا نام درج کرتا ہے اور جس نسخے سے اس نے یہ نسخہ تیار کیا ہوتا ہے یعنی جسے اصل بنایا ہوتا ہے، وہ بھی ذکر کرتا ہے۔ اس طرح غلطی یا تحریف کے مبدا تک پہنچنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ پھر مخطوط نسخہ جن علماء و محدثین کی نظر سے گزرتا تھا، ان کا ذکر بھی اس میں کر دیا جاتا تھا۔ یوں اس کی ثقاہت اور استناد میں مزید اضافہ ہو جاتا تھا۔

محمد سرور