سوال (3554)

’’ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ طَلْقٍ الْحَنَفِيَّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ مَسِّ الذَّكَرِ فَقَالَ لَيْسَ فِيهِ وُضُوءٌ إِنَّمَا هُوَ مِنْكَ‘‘ [سنن ابن ماجه: 483]

حضرت قیس بن طلق حنفی اپنے والد ( حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ ) سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے فرمایا: میں نے سنا کہ کسی نے رسول اللہ ﷺ سے عضو خاص کو ہاتھ لگانے کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اس سے وضو لازم نہیں آتا، وہ بھی تیرا ایک حصہ ہے۔

جواب

اس سے زیادہ صحیح روایت رجال کے اعتبار سے حدیث بسرہ ہے اور صحیح ابن حبان کی حدیث میں صراحت ہے کہ اگر کپڑے کے بغیر ہاتھ لگ جائے تو وضو کرنا ہو گا، بعض نے اسے افضل و اولی قرار دیا ہے۔
ذکر کو بغیر کپڑے کے چھونے سے وضو ٹوٹ جانے کے بارے میرا یہ گزشتہ سالوں میں ایک مجموعہ میں اس مسئلہ بارے موقف کچھ الفاظ کے اضافے و ترمیم سے پیش خدمت ہے، حدیث طلق، حدیث بسرہ، حدیث أبو ھریرہ اور دیگر روایات و آثار کی وجہ سے اس مسئلہ میں اہل علم کے ہاں کئی موقف ہیں، لیکن مجموعی دلائل وآثار کے مطالعہ کا ماحاصل یہ کہ حدیث بسرہ کے روات سے شیخین نے صحیحین میں حجت پکڑی ہے اور اس کے روات حدیث طلق سے زیادہ قوی بھی ہیں اور محدثین سے کثیر تعداد نے اس حدیث کی تصحیح بھی کی ہے جبکہ حدیث طلق کے روات اس سے کم مرتبہ کے ہیں بلکہ قیس بن طلق پر کلام بھی ہے گو وہ حسن الحدیث ہے اس اعتبار سے بھی حدیث بسرہ کو ہی ترجیح ہو گی کہ اس کی سند صحیح ہے اور حدیث ابوہریرہ کی سند حسن لذاتہ ہے جو اس مسئلہ کو زیادہ واضح کرتی ہے یعنی مفسر و مفصل و خاص ہے جبکہ حدیث طلق مجمل ومبہم و عام ہے۔
اس روایت کو ضعیف کہنا درست نہیں ہے، اب حدیث ابی ھریرۃ رضی الله عنه کی سند اور متن ملاحظہ ہو

أخبرنا علی بن الحسین بن سلیمان المعدل بالفسطاط و عمران بن فضالة الشعيری بالوصل ( ثقة) قال حدثنا أحمد بن سعید الھمدانی (حسن الحدیث) قال حدثنا أصبغ بن الفرج قال حدثنا عبدالرحمن بن القاسم عن یزید بن عبدالملك و نافع بن ابی نعیم القارئ ( حسن الحدیث) عن المقبری عن أبی ھریرۃ رضی الله عنه قال: قال رسول الله صلی الله عليه وسلم إذا أفضی أحدکم بیدہ الی فرجه و ليس بينهما ستر و لا حجاب فليتوضأ۔ [صحیح ابن حبان : 1118 سندہ حسن]

یہاں میں آثار کو جان بوجھ کر ترک کر رہا ہوں، اب امام ابن حبان کا کلام حدیث طلق اور حدیث أبو ھریرہ کے مابین تقدیم و ترجیح کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے۔
امام صاحب کہتے ہیں: ذکر الوقت الذی وفد طلق بن علی علی رسول الله صلی الله عليه وسلم
اس کے بعد حدیث بیان کرتے ہیں کہ سیدنا طلق بن علی رضی الله عنه نے بیان کیا

بنیت مع رسول الله صلی الله عليه وسلم مسجدالمدینة فكان يقول: قدمو اليمامی من الطین فانه من أحسنكم له مسا۔ صحیح ابن حبان :(1122)سندہ حسن لذاتہ۔

اس کے بعد امام ابن حبان لکھتے ہیں:

خبر طلق بن علی الذی ذکرناہ خبر منسوخ لأن طلق بن علی کان قدومه على النبی صلی الله عليه وسلم أول سنة من سن الهجرة حيث كان المسلمون يبينون مسجد رسول الله صلی الله عليه وسلم بالمدينة و قد روی أبو ھریرۃ ایجاب الوضوء من مس الذکر علی حسب ما ذکرناہ قبل و أبو ھریرۃ أسلم سنة سبع من الحجرة فدل ذلك أن خبر أبا هريرة كان بعد خبر طلق بن على بسبع سنين۔

آگے پھر حدیث نمبر:(1123) کے تحت لکھتے ہیں۔

فی ھذالخبر بیام واضح أن طلق بن علی رجع الی بلدہ قدمة التی ذکرنا وقتھا ثم لا یعلم له رجوع الی المدینة بعد ذلك فمن ادعی رجوعه بعد ذلك أن يأتي سنة مصرحة و لا سبيل له ذلك۔

باقی کچھ اہل علم نے بھی حدیث بسرہ کو حدیث طلق پر ترجیح دی ہے بمع وجوح دیکھیئے سبل السلام:1/ 108 یہاں قیس بن طلق بارے کلام درست نہیں کہ وہ علی الراجح حسن الحدیث غیر ماانکر علیہ ہے۔
مزید محدث مبارکپوری رحمہ الله کا کلام بھی ضرور پڑھیے گا تحفۃ الأحوذی: 1/ 202 تا204
اس مختصر سی توضیح سے مسئلہ واضح ہے کہ بغیر کپڑے شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور حدیث بسرہ و أبو ھریرۃ رضی الله عنھما کو ہی ہر اعتبار سے یعنی قوت صحت اور خاص و مفسر ہونے کی وجہ سے فوقیت حاصل ہے۔
اور ہم جمیع دلائل و قرائن اور مفصل تحقیق کے بعد اسی نتیجے پر پنہچے ہیں باقی جن اہل علم کا ہم سے اتفاق نہیں ہمارا بھی ان توضیحات کی روشنی میں ان سے اتفاق نہیں ہے ہم نے جو راجح سمجھا اس پر قائم ہیں۔ اب آپ خود سے فیصلہ کر کے جو اقرب الی الحق ہے اس پر قائم رہیں۔ ( البتہ اہل علم کے ایک فریق یہ کہتے ہیں کہ وضو کرنا اولی ومستحب ہے ضروری نہیں ہے. ان میں سلف صالحین بھی ہیں)
نوٹ: ابھی میں نے آثار سلف صالحین کو اپنے موقف میں پیش نہیں کیا ہے۔
ھذا ماعندی والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ