سوال (1747)

کیا ذی الحجہ کا چاند دیکھ کر صحابہ تکبیرات پڑھتے تھے ؟ اس کی دلیل چاہیے ؟

جواب

مندرجہ ذیل دلائل ملاحظہ فرمائیں ۔
(1) : صحيح بخاری میں معلق روایت ہے

“وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ وَأَبُو هُرَيْرَةَ يَخْرُجَانِ إِلَى السُّوقِ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ يُكَبِّرَانِ وَيُكَبِّرُ النَّاسُ بِتَكْبِيرِهِمَا”

عبداللہ بن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما ان «دس دنوں میں تکبیرات کہتے ہوئے بازار کی طرف نکل جاتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ مل کر تکبیرات کہتے»۔
(2) : امام عبد الرحمن بن عمرو الأوزاعي رحمہ اللہ سے تکبیرات کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا :

“يُكَبَّرُ مِنْ غَدَاةِ عَرَفَةَ إِلَى آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ كَمَا كَبَّرَ عَلِيٌّ وَعَبْدُ اللهِ” [المستدرك للحاكم : ٤٤٠/١ ح : ١١١٦ وسنده صحیح]

“عرفہ کی صبح سے لے کر ایام تشريق کے آخر تک تکبیرات کہے جیسا کہ سیدنا علی اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے.”
(3) : ابو وائل شقیق بن سلمہ الأسدی رحمہ اللہ (تابعی) بیان کرتے ہیں :

“كَانَ عَلِيٌّ يُكَبِّرُ بَعْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ غَدَاةَ عَرَفَةَ، ثُمَّ لَا يَقْطع حَتَّى يُصَلِّيَ الْإِمَامُ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ بَعْدَ الْعَصْرُ” [المستدرك للحاكم : ٤٤٠/١ ح: ١١١٣ ، السنن الكبرى للبيهقي : ٤٣٩/٣ ح : ٦٢٧٥ وسنده حسن]

“سیدنا علی رضی اللہ عنہ عرفہ کی صبح ، فجر کی نماز کے بعد تکبیرات کہتے، پھر ایام تشريق کے آخری دن (١٣ ذوالحجہ کو) امام کے نماز عصر پڑھانے تک مسلسل کہتے رہتے اور عصر کی نماز کے بعد بھی تکبیرات کہتے.”
(4) : عکرمہ مولی ابن عباس رحمہ اللہ، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کرتے ہیں :

“أَنَّهُ كَانَ يُكَبِّرُ مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ، إِلَى آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ”
[مصنف ابن أبي شيبة : ٤٨٩/١ ح: ٥٦٤٦ ، المستدرك للحاكم : ٤٤٠/١ ح : ١١١٤ ، السنن الكبرى للبيهقي : ٤٣٩/٣ ح : ٦٢٧٦ وسنده صحیح]

“سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ عرفہ کی نماز فجر سے لیکر ایام تشريق کے آخری دن (١٣ ذوالحجہ) تک تکبیرات کہتے.”

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ