سوال (3465)
ایک مسئلہ ہے کہ ایک گورنمنٹ ملازم ہے، جسے اپنی تنخواہ کے لیے بینک اکاؤنٹ کھلوانا پڑا۔ اس نے جب اکاؤنٹ کھلوایا تو کرنٹ اکاؤنٹ کھلوایا کچھ دنوں بعد بینک نے خود ہی اس اکاؤنٹ کو سیونگ اکاؤنٹ میں تبدیل کردیا اور اب اس کے اکاؤنٹ میں بینک کی طرف سے کچھ منافع بھی شامل کردیا گیا ہے، تو کیا فرماتے ہیں علماء کرام کہ اس منافع والی رقم کا کوئی ایسا مصرف ہے کہ جس سے بندہ گناہگار نہ ہویا پھر اس گناہ سے بچنے کا کوئی طریقہ ہے؟ اس کا سیلری اکاؤنٹ ہے وہ اسے بند تو کر نہیں سکتا۔
جواب
شریعت نے سود لینے کو ہی حرام قرار دیا ہے۔ [بخاری: 4092]
البتہ لاعلمی میں اگر سود لے لیا ہو تو اس صورت میں اس اضافی سود کی رقم کو مختلف جگہ پر خرچ کرسکتے ہیں:
1: کسی مسجد مدرسہ کے باتھ روم وغیرہ کی تعمیر،صفائی پر۔
2: وکیل کے ذریعہ یا کسی اور طریقہ سے جیلوں میں قید بے گناہ قیدیوں کی رہائی پر۔
3: کسی نے سود پر قرضہ لیا ہو اور وہ توبہ کرنا چاہتا ہو اس حرام فعل سے تو اس پر جو اب تک اضافی سود لگ چکا ہوتا اس کی ادائیگی میں۔
اسی طرح کے کچھ کاموں پر خرچ کرسکتے ہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ
انتہائی قابل احترام شیخ میرے علم کے مطابق مسجد کے باتھ روم یا صفائی والی بات تکلف ہے کسی بھی اچھی جگہ بشمول مسجد استعمال کی جا سکتی ہے۔ واللہ اعلم
فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ
سب سے پہلے یہ ممکن نہیں ہے کہ بینک اپنے طور پر کسی بھی اکاؤنٹ کی نوعیت تبدیل کردے، اگر آپ نے فارم پر کرتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ پر نشان لگایا تھا تو بینک اس پر پابند ہے کہ اس کو کرنٹ ہی رکھے، اس لیے آپ بینک جا کر بینک مینجر سے بات کرکے اپنے اکاؤنٹ کی نوعیت تبدیل کریں، دوسری بات یہ ہے کہ خواہ کرنٹ اکاؤنٹ ہو یا سیونگ اکاؤنٹ ہو، سودی عمل دخل دونوں میں ہے، فرق صرف یہ ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں سودی رقم آپ کو نہیں دیتے ہیں، وہ خود استعمال کر لیتے ہیں، اس لیے کہ آپ کرنٹ اکاؤنٹ کھلوائیں یا سیونگ کھلوائیں، دونوں صورتوں میں آپ کی رقم سودی پروسیس میں استعمال ہوگی، کسی بھی بینک میں خصوصا کمرشل بینک میں کوئی بھی ایسا رجسٹر نہیں ہوتا ہے کہ جس میں یہ وضاحت ہو کہ یہ رقم کرنٹ اکاؤنٹ کی ہے، اس کو ہم سود میں استعمال نہیں کریں گے، یہ صرف کسٹومر یا کلائینڈ کے لیے دھوکہ دہی پر مبنی ایک چیز ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، باقی کچھ فیچرز الگ ضرور ہیں، باقی دونوں کا ایک ہی کام ہے، جہاں تک سیونگ اکاؤنٹ سے جو سودی رقم ملتی ہے، اس کے بارے میں میں نے بعض مشایخ کے یہ فتاویٰ سنے ہیں کہ ایسی رقم سے ایسے مقروض لوگوں کی قرض کی ادائیگی کی جائے جو قرض ادا نہیں کر سکتے ہیں، یا جیل میں پڑے لوگوں کے مالی جرمانہ ادا کیے جا سکتے ہیں، مجھے ابھی یاد نہیں ہے کہ یہ کن مشائخ کے فتاویٰ ہیں۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ