سوال (6243)

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَابْنُ السَّرْحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَصَاعِدًا”. قَالَ سُفْيَانُ: لِمَنْ يُصَلِّي وَحْدَهُ. ڈاکٹر عبدالرحمٰن فریوائی

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ اور کوئی اور سورت نہیں پڑھی ۱؎“۔ سفیان کہتے ہیں: یہ اس شخص کے لیے ہے جو تنہا نماز پڑھے ۲؎۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 822]
شیخ محترم یہ حدیث کا سمجھادیں، آخر پر لکھا ہے یہ اس کیلئے ہے جو تنہا نماز پڑھے۔
اس کا کیا مطلب کہ جماعت میں سورت فاتحہ نہیں پڑھنی؟

جواب

یہ امام سفیان رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں، یہ نبی کریم ﷺ کے الفاظ نہیں ہیں، حدیث کی بعض کتابوں میں حدیث نقل کی جاتی ہے، بعض میں ائمہ کے اقوال ذکر کیے جاتے ہیں، یہ ایک امام کا قول ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

مسلم: 394، ابوداؤد: 822
1 اس میں جو الفاظ ہیں “فصاعداً” یعنی فاتحہ کے ساتھ اس سے زائد بھی. پڑھنا فرض ہے۔
یہ “فصاعدا” کے الفاظ ثابت نہیں. محدثین نے اس لفظ کی زیادتی کو شاذ قرار دیا ہے۔
جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے شاذ قرار دیا. (القراءۃ خلف الامام,صفحہ: 4)
(مزید وضاحت کے لیے امن پوری حفظہ اللہ کی کتاب،فاتحہ خلف الامام، صفحہ26,27 دیکھیں)
لہذا نماز میں فرض صرف فاتحہ ہے جس کے بغیر نماز نہیں، (بخاری: 756) بعد والی قرات کے بغیر نماز باطل ہونے پر کچھ بھی ثابت نہیں۔
2 اس میں جو سفیان بن عیننہ رحمہ اللہ کا قول بیان کیا گیا ہے یہ ثابت نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ

سائل: حضرت زید بن ثابت رضى الله عنه کا فتوی، امام کے پیچھے قرآت نہیں کرنی چاہیے، [صحیح مسلم: 1298] شیخ محترم یہ دلیل دے رہے ہیں۔ شیخ رہنمائی کریں؟
جواب: اس سے مراد جہری نمازوں میں فاتحہ کے بعد والی قرات لی جائے گی جیسا کہ مرفوع احادیث میں واضح ہے۔ كتاب القراءة خلف الإمام: 121

صَلَّى بِنَا رَسُول اللَّهِ ﷺ بَعْضَ الصَّلَوَاتِ الَّتِي يَجْهَرُ فِيهَا بِالْقِرَاءَةِ، قَالَ: فَالْتَبَسَتْ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةُ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: «هَلْ تَقْرَأُونَ مَعِي؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ؛ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا»

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں جہری نمازوں میں سے ایک نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرات بوجھل ہوگئی ،نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا آپ میرے ساتھ قرار کرتے ہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ جی ہاں،تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپ ایسا نہ کیا کریں البتہ سورة فاتحہ (ام الکتاب) پڑھا کریں کیونکہ اس شخص کی نماز نہیں جو نماز میں فاتحہ نہ پڑھے۔ سندہ حسن، ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ