میرے سلفی بھائیو!  اللّٰہ کے واسطے اپنے ذاتی اختلافات اور رنجشوں کی بنیاد پر “منہج” کی آڑ لے کر آپسی دشمنی نہ نکالیں اور منہج کو بدنام نہ کریں، ویسے ہی لوگ “منہج اور منہج کی بات کرنے والوں” کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور انہیں مطعون کرنے کی راہیں تلاش کرتے رہتے ہیں، اگر آپ اس طرح کی چھوٹی موٹی باتوں کی وجہ سے آپس میں دست و گریباں رہیں گے تو مخالفین کو خود مواقع فراہم کریں گے اور لوگوں کو خود سے متنفر کریں گے۔
چوکنا رہیں دنیاوی مال واسباب اور شہرت وناموری کی حرص و ہوس آپ کو فتنے میں مبتلا نہ کر دے، بڑے علماء ذاتی غرض کی خاطر کسی کے خلاف زبان یا قلم کا استعمال نہیں کرتے تھے اور نہ ذاتی مسائل کو دینی اختلاف کا رنگ دے کر پیش کرتے تھے کیونکہ یہ سب سے عظیم گناہوں میں سے ہے۔
کسی کو سلفیت سے خارج کر دینا اسے بدعتی قرار دے کر بہتر گمراہ فرقوں میں شامل کر دینا ہے جو کہ انتہائی خطرناک اور حساس عمل ہے لہٰذا بلا ٹھوس دلیل کے کسی کو بھی سلفیت سے خارج نہیں کیا جا سکتا ہے اور یہ صرف بڑے علماء اور ماہرین فن کا اختیار ہے ہر کس و ناکس ان امور میں بات کرنے سے گریز کرے!!!
“بردریت” کوئی معین جنسیت نہیں ہے کہ صرف وہی بردر ہوگا جس کا تعلق اس جنسِ خاص سے ہوگا بلکہ یہ ایک “مستقل منہج” ہے جس سے تعلق رکھنے والے بلا علم وتحقیق شرعی مسائل پر بات کرتے ہیں، بنا بریں کوئی ڈاکٹر انجینئر ایڈوکیٹ بھی بردر ہو سکتا ہے اور کوئی مدرسے کا فارغ التحصیل بھی، البتہ اول الذکر قسم کے جو لوگ دعوت وتبلیغ کے میدان میں آتے ہیں ان کی اکثریت پر بلا علم فتویٰ بازی اور تقریر و تحریر کا رنگ غالب ہوتا ہے اس لیے ان کے تعلق سے یہ لفظ کثیر الاستعمال ہے، جب کہ مدارس کے فارغین کی بہت بڑی تعداد بھی بغیر علم و بصیرت اور رسوخ کے بات کرتی نظر آتی ہے لیکن چونکہ ان میں سے بہتوں کو اپنی حدود کا پتا ہوتا ہے اس لیے وہ بڑی گمراہیوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
لہٰذا صرف شخصی پسند یا نا پسند کی بنیاد پر کسی کو بردرز کی فہرست میں شامل کرنا اور کسی کو باہر کرنا علمی دیانت داری کے منافی ہے۔
کثرت کلام اکثر انسان کو نقصان پہنچاتی ہے اس لیے ہر کسی کے بارے میں اور ہر مسئلے پر اپنی رائے دینے سے بچیں، الا یہ کہ آپ کے پاس مضبوط شواہد موجود ہوں اور آپ کا بات کرنا ضروری ہو، اپنے سلفی بھائیوں کی چھوٹی موٹی غلطیوں سے چشم پوشی برتیں خواہ ان کا تعلق دینی مسائل ہی سے کیوں نہ ہو نیز ان کی اجتہادی لغزشوں پر تعیین کے ساتھ جارحانہ انداز میں رد و تنقید سے احتراز کریں کیونکہ اس سے دلوں میں کدورت جنم لیتی ہے اور آپسی محبت کا رشتہ کمزور پڑ جاتا ہے، ہاں نرمی کے ساتھ مصلحانہ انداز میں صحیح بات کی رہنمائی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر لوگ شہرت یا حظوظ النفس سے بالاتر ہو کر دینی مسائل میں صرف رب کی خوشنودی کے لیے اپنی زبان اور قلم کا استعمال کریں اور اس سلسلے میں اللّٰہ کے حضور جواب دہی کی فکر کریں تو بہت سارے بیجا اختلافات سے بچ جائیں گے، ذرا غور کریں کہ اگر آپ کسی عالم دین کو بلا علم وبصیرت بغیر دلیل”بدعتی” کہہ دیں تو اس سے کون سا دینی یا دنیاوی فایدہ حاصل کر لیں گے؟!! بلکہ اس کے برعکس آپ حقوق العباد سے متعلق ظلم کرنے کی وجہ سے سزا کے مستحق ہوں گے!! اس لیے اللّٰہ سے ڈریں!!!
اللّٰہ ہمیں زبان وقلم کے صحیح استعمال کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

مامون رشید بن ہارون رشید سلفی