آپ نے اکثر محقق کتابوں کے حاشیہ میں یہ جملہ دیکھا ہوگا۔ اس جملہ کی معنویت کا صحیح اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ اس جملہ کے پیچھے محقق کی کتنی محنت شامل ہے اسے وہ اور اس کا رب ہی بہتر جانتا ہے۔
اکثر مصنفین کسی کتاب سے اقتباس نقل کرتے وقت تصرف سے کام لیتے ہیں، یا بالمعنی بیان کرتے ہیں، یا کتاب سے ڈائرکٹ نقل نہیں کرتے بلکہ اپنے حافظہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اسے ذکر کرتے ہیں۔ بنا بریں بہت سارے اقوال کی نسبت میں انہیں وہم بھی ہو جاتا ہے۔ محقق ان کی توثیق کے لئے مذکورہ مصادر کو ہر طرح سے کھنگالتا ہے، لیکن اسے بالآخر مایوسی ہاتھ لگتی ہے۔ کیونکہ وہ قول غلطی سے مصنف نے کسی دوسرے کی طرف منسوب کر دیا ہوتا ہے۔ ایسے موقعے پر “لم أقف علیه” کی تعلیق محقق کی محنت اور جانفشانی کی صحیح تعبیر نہیں کر پاتی اور قاری کو احساس تک نہیں ہوتا کہ اس جملہ کو لکھنے سے پہلے محقق نے اپنا کتنا وقت اس کی تلاش وجستجو میں قربان کیا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ایک سچے اور امانت دار محقق کی محنتوں کا اندازہ اس کے اور اس کے رب کے علاوہ کسی کو نہیں ہو سکتا۔

یہی حال مصنفین کا بھی ہے۔ وہ بھی بہت ساری جگہوں پر اس طرح کے جملے استعمال کرتے ہیں جو ان کی ناکامی کی نہیں بلکہ جانفشانی اور قربانی کی دلیل ہوتی ہے۔

حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں تقریبا سات سو جگہوں پر صراحت کی ہے کہ فلاں چیز مجھے نہیں مل سکی۔ لیکن اس صراحت سے پہلے جو انھوں نے تلاش اور محنت کی ہے اسے ہم عملی طور پر کرنے کی ہمت تو کیا، تصور بھی نہیں کر سکتے۔
فرماتے ہیں کہ بسا اوقات ایک یا دو دن میں میں نے پورا پورا مجلد پڑھ ڈالا ہے لیکن اس کے باوجود اس میں مطلوبہ کوئی چیز نہ مل سکی، یا کبھی کوئی ایک آدھ چیز ہی ملی۔

ایک بار میں نے اپنے استاد شیخ صالح بن غالب العواجی حفظہ اللہ سے سنا تھا، کہہ رہے تھے کہ انھوں نے حافظ ابن حجر کا ایک قول پڑھا ہے جس میں انھوں نے صراحت کی ہے کہ میں نے فلاں چیز کو تیس ہزار اجزاء میں ڈھونڈا لیکن مجھے نہ مل سکی۔
اللہ اکبر!!!

 فاروق عبد اللہ نراین پوری