سوال

اگر کسی بچی کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر کر دیا جائے تو کیا یہ نکاح صحیح ہوگا؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اگر کسی لڑکی کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر کر دیا جائے تو نکاح منعقد تو ہو جاتا ہے، لیکن اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسے مسترد کر دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

“لا تُنكَحُ الأيمُ حتى تُستأمر، ولا تُنكَحُ البِكرُ حتى تُستأذَن”. [صحيح البخاری: 5136]

’’بیوہ عورت کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے، اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اسکی اجازت نہ مل جائے‘‘۔
ایک لڑکی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا:
میرے والد نے میرا نکاح ایسی جگہ کر دیا ہے جہاں میں نہیں چاہتی۔

“فَخَيَّرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ”. [أبو داود: 2096]

’’تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور قاضی اسے اس نکاح کو قائم رکھنے یا مسترد کرنے کا اختیار دے دیا‘‘۔
نکاح کے کچھ مراحل ہوتے ہیں، جیسے منگنی، وقت مقرر ہونا، بارات آنا، نکاح پڑھایا جانا اور نکاح نامے پر دستخط ہونا۔
اگر لڑکی شروع میں ہی نکاح کو قبول نہ کرتی تو یہ نکاح سرے سے نہ ہوتا، لیکن اگر نکاح ہو گیا ہے اور وہ راضی نہیں تو اسے مسترد کرنے کا حق حاصل ہے۔
شریعت نے ولی کو نکاح کا اختیار دیا ہے، لیکن زبردستی کا اختیار نہیں دیا۔ اگر ولی نے لڑکی کی رضامندی کے بغیر زبردستی نکاح کیا ہے تو نکاح منعقد تو ہو جائے گا، مگر لڑکی کو اس کے رد کرنے کا مکمل اختیار ہوگا۔
لہذا اگر کسی لڑکی کی رضامندی کے بغیر نکاح ہو جائے تو نکاح تو منعقد ہو جاتا ہے، لیکن اسے اختیار ہے کہ وہ اس نکاح کو ختم کر دے۔ شریعت نے عورت کی مرضی کو نکاح کی بنیادی شرط قرار دیا ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زبردستی کیے گئے نکاح کو مسترد کروا دیا تھا۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ