قصہ یوں ہوا کہ حبشہ سے ایک بڑی کشتی سمندروں کے سفر پر نکلی جدہ کے پاس آئی اور ٹوٹ گئی۔ یہ تو کشتی کے نصیب تھے کہ جنہوں نے بلند ہونا تھا۔ قریش کو خبر ملی کہ جدہ کے ساحلوں پر لکڑی کی ایک بڑی کشتی ٹوٹی پڑی ہے تو وہ اس کی لکڑی مکہ لے آئے اور ساتھ ہی ساتھ ایک رومی کو بھی کہ جس کی ان کو خبر ملی کہ یہ بڑھئی بھی ہے۔ ان کے ذہن میں تھا کہ بیت اللہ کو از سرِ نو تعمیر کیا جائے۔
موسی بن عقبہ کہتے ہیں، فوری سبب اس کا یہ ہوا کہ قریش نے کعبہ کی حفاظت کے لیے ایک بند تعمیر کر رکھا تھا جو موسموں کی شدت اور طغیانی کے سبب خراب ہو چکا تھا ۔ کچھ خانہ کعبہ کا دروازہ بھی نیچے تھا اور ملیح نامی ایک شخص نے کعبے میں موجود ایک خوشبو بھی چرا لی تھی۔ اب قریش چاہتے تھے کہ اس کا دروازہ اونچا کر دیا جائے۔ اسی طرح ابن شہاب کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لڑکپن میں ایک خاتون کعبے کو خوشبو کی دھونی دینے لگی تو اس کا برتن جس میں عود تھا اس سے ایک چنگاری اڑی اور کعبے کے غلاف پر جا گری اور وہ جل کر راکھ ہو گیا اور ساتھ ہی ساتھ خانہ کعبہ کو خاصا نقصان ہوا ۔۔۔سو اب جب سامان تعمیر میسر ہوا تو تعمیر کا کام شروع ہو گیا۔
اس تعمیر نو میں قریش نے اس بات کا خیال رکھا کہ اس پر جو رقم صرف کی جائے اس میں مال حرام شامل نہ ہو۔ اس اہتمام کا سبب یہ ہوا کہ ابو وہب بن عمر وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے کعبہ کی عمارت کو گرانے کے واسطے ایک پتھر اکھاڑا تو ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر اپنی جگہ پہ جا لگا۔
یہ منظر دیکھ کر ابو وہب نے کہا:
” اے قریش اس کی تعمیر میں حلال مال صرف کرنا۔ زنا ، سود اور ظلم کی رقم اس میں شامل نہ کرنا۔ بعض اس قول کو ولید بن مغیرہ سے منسوب کرتے ہیں۔ یہ ابو وہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ کے ماموں تھے اور نہایت شریف انسان تھے۔
آخر تعمیر شروع ہو گئی اور اول اول مرحلہ کہ پرانی عمارت کو گرانا مشکل تھا۔ قریش ہزار وہم دل میں پالے آگے بڑھتے، پیچھے ہٹ آتے ۔ کسی کو ہمت نہ ہوتی کہ بیت اللہ پر کدال چلائے ۔ دیکھیے نکتے کی بات کہ اس طرح کے وساوس اور اوہام سے بچنے کے لیے توحید کیسی ضروری ہے۔ جب انسان توحید سے دور ہو جائے، بتوں کو دل میں بسا لے، قبروں کو آنکھوں سے لگا لے اور جبین نیاز غیر اللہ کے سامنے جھک جائے تو دل وسوسوں کے خوگر ہو جاتے ہیں۔ سو یہی قریش کے ساتھ ہو رہا تھا، کسی کی ہمت نہ ہوتی کہ پہلی کدال چلائے۔ آخر ولید بن مغیرہ آگے بڑھا اور اس نے اس تعمیر کے واسطے تخریب شروع کی اور پہلی کدال چلائی۔ پھر اس نے حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان کا حصہ مسمار کر دیا، لیکن پھر بھی کوئی آگے نہ بڑھا۔ قریش رات بھر منتظر رہے کہ اگر ولید کسی مصیبت میں مبتلا ہو گیا تو ہم ٹوٹی دیوار کی پھر سے مرمت کر دیں گے، ورنہ تعمیر کا کام جاری کر دیں گے۔ اگلی صبح ولید بھلا چنگا پھر آیا اور آ کے عمارت توڑنا شروع کی اب قریش کا حوصلہ بڑھا، دل ٹھہرا اور یوں عمارت گرا دی گئی۔ اور اس کے بعد اس کی تعمیر شروع کی گئی۔ سب قبائل اپنے اپنے حصے کے پتھر لاتے اور نصب کرتے، حتیٰ کہ دیواریں مقام اسود تک بلند ہو گئیں۔ اب حجر اسود کو نصب کرنے کا وقت آ گیا۔
بلا شبہ یہ عزت و عظمت کا مقام تھا کہ آج حجر اسود کو کون نصب کرتا ہے جھگڑا ہوا، حالات اس حد تک کشیدہ ہوئے کہ بنی عبدالدار اور بنی عدی بن کعب نے ایک دوجے کے مقابلے پر اتر آئے اور عہد کیا کہ جان دے دیں گے مگر پیچھے نہ ہٹیں گے ۔ فریقین نے خون میں لبریز پیالے میں ہاتھ ڈبو کر عہد جانبازی کیا۔ اس جھگڑے میں چار پانچ روز گزر گئے اور تعمیر رک رہی۔ قریب تھا کہ معاملہ بڑھ جاتا کہ قریش کے بڑوں نے بیت اللہ میں شوری منعقد کی۔ ابو امیہ مخزومی نے، جو سب سے عمر رسیدہ تھا، کہا کہ:
” کیوں جھگڑتے ہو یہ اس سامنے دروازے سے جو شخص سب سے پہلے آئے گا وہی آج کی اس بارات کا دلہا ہو گا اور حجر اسود لگا دے گا یا جو چاہے وہ فیصلہ کرے ”
کہ میں تیرا چراغ ہوں جلائے جا ، بجھائے جا
سب نے اس پر صاد کیا ۔۔ اور آنکھیں اس دروازے کی طرف چار ہو گئیں ۔۔۔
پھر آسمان سے سندیسہ آیا کہ حضور آئیں اور زمیں آسماں مسکرائیں ۔ ہمارے حضور اس دروازے سے داخل ہوئے اور سب پکار اُٹھے:
” یہ امین آ گئے اور ہم نے انہیں پسند کیا ، یہ محمد ہیں ”
مقدمہ آپ کی بارگاہ عالیہ میں پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
” ھلموا الی ثوبا ”
ایک کپڑا لاؤ، کپڑا لایا گیا، آپ نے اس کے بیچوں بیچ حجر اسود کو رکھا اور سب قبائل کے بڑوں کو اس کپڑے کو مل کر اٹھانے کا کہا ۔۔۔جب مقام مقصود تک پہنچا تو آپ نے آگے بڑھ کر اسے اس کے مقام پر رکھ دیا ۔۔۔۔ یوں کہ جیسے ہمارے حضور نے سب انبیاء کے بعد آ کر دعوت توحید کا اتمام کیا اور ہر شے کو ہمیشہ کے لیے اپنے مقام پر رکھ دیا۔
امین تو آپ پہلے تھے صادق آپ کو پہلے سے کہا جاتا تھا اب آپ سب کے معتبر بھی ہو گئے تھے ۔۔
اس نوجوانی میں ہی زندگی بہت وقار سے آگے بڑھ رہی تھی۔ تجارت بھی ساتھ ساتھ جاری تھی۔ پہلے تایا زبیر کے ساتھ اور بعد چچا ابو طالب کے ساتھ سفروں نے تجارت کی راہیں بھی کھول دی تھیں۔
اور تجارت میں اپ کی قابلیت اور امانت و دیانت کا شہرہ تو پہلے ہی اہل مکہ کی زبان پر تھا۔
سیدنا عبداللہ بن صاحب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:
“کنت شریک النبی فی الجاہلیہ ”
کہ میں جاہلیت کے دور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تجارت تھا اور جب قبول اسلام واسطے مدینے آیا تو آپ نے مجھ سے کہا:
“کیا تم مجھے پہچانتے ہو ؟”
تو میں نے کہا:
“جی ہاں میں پہچانتا ہوں، آپ تو میرے شریک تجارت تھے اور آپ بہت ہی اچھے شریک تھے، نہ کبھی آپ نے بے جا تکرار کی اور نہ ہی تو تکار۔۔۔۔۔”
یہاں آپ کی زندگی میں ایک بڑا واقعہ پیش آیا کہ مکہ کے ایک متمول خاندان کی ایک معزز خاتون نے آپ کو اپنا سامان تجارت شام لے کر جانے کا کہا، یہ کاروباری شراکت داری تھی۔۔ خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی بن کلاب تھیں، جن کا نسب چوتھی پشت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل جاتا ہے۔ آپ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو اسد سے تھا جو ایک معزز خاندان شمار کیا جاتا۔
آپ ان معزز خاتون کا سامان تجارت لے کر چلے کہ جن کا دل اندیشوں سے بھرا ہوا تھا۔ سبب یہ ہوا کہ اس سے پہلے کتنے ہی شراکت دار بی بی کے پاس آئے اور گئے لیکن معاملات شفاف نہ رہے، کبھی نفع کم اور کبھی دیگر خرابیاں۔ اب کہ کچھ دل ٹوٹا ٹوٹا تھا کہ آخر خاتون تھیں کہ حالاتِ زندگی نے کاروبار میں لا کھڑا کیا وگرنہ ان کے والد سب کچھ دیکھتے تھے ۔ خویلد بوڑھے ہو چلے تھے اور دوسری طرف خدیجہ کی ایک شادی ہوئی اور میاں وفات پا گئے۔ پھر دوسری شادی ہوئی اور خدا کی مرضی کہ وہ میاں بھی رخصت ہوئے۔۔ معزز خاتون کا جی اٹھ گیا، اوپر سے ابا کے بڑھاپے نے کاروبار کا بوجھ بھی سر پر لاد دیا ۔۔۔۔
زبانی طیور کی ، خبریں ملتی تھیں کہ سردار عبدالمطلب کے پوتے کہ جنہیں امین کہا جاتا اور صادق پکارا جاتا ہے اور تجارت کی دنیا میں داخل ہوئے ہیں۔ خدیجہ کہ ملازمین اور شراکت داروں کی ستائی ہوئیں، جیسے کسی نے امید کی جوت جگا دی ۔۔۔
امید کہ لو جاگا غم دل کا نصیبہ
عرض گزار ہوئیں کہ ان کا سامان تجارت شام کی طرف لے جائیں ۔۔۔ درخواست منظور ہوئی
لو شوق کی ترسی ہوئی شب ہو گئی آخر
حضور سامان تجارت لے کر شام کو نکلے ۔۔۔ اور برکتیں تو ہمیشہ سے ہم راہ تھیں ۔۔۔ وہی برکتیں کہ جو بی بی آمنہ کی کوکھ سے نکلی اور حلیمہ سعدیہ کی گود میں پہنچیں اور اب خدیجہ کے سر پر سہاگ بننے کو تھیں ۔۔۔
بی بی نے اپنا غلام میسرہ ساتھ کیا اور کہا کہ بس دیکھتے جانا کہ سنا ہے اب کے معاملہ کچھ الگ ہے۔۔
اور غلام میسرہ بس چپکا دیکھتا کہ کیسے برکتوں کا نزول اور حصول ہوتا رہا۔۔۔ روایات میں آتا ہے کہ دوران سفر کچھ واقعات ایسے بھی پیش آئے کہ جو معمول سے ہٹ کر تھے۔ یہودی عالم اور عیسائی راہب ان علاقوں میں درگاہیں بنائے بیٹھے تھے کہ ان کی کتابیں کہتی تھیں کہ یہ علاقہ مرادوں والا ہے اور یہاں آخری نبی کا ظہور ہو گا۔ میسرہ کو بھی ایک راہب ملا جیسے جناب ابی طالب کو ملا تھا ۔۔ اور کچھ ویسی ہی باتیں ہوئیں ۔۔۔
پہلے سے دوگنا نفع مند ہو کر مسافر مکہ پہنچے ، پرجوش میسرہ مالکن کے پاس پہنچا اور راہ بھر کے مشاہدے سناتا چلا گیا ۔۔۔ بتاتا رہا کہ ہمارے حضور کیسے معاملہ فہم ہیں اور کس شاندار طور پر سودا کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کہ سب کچھ دیانت و امانت کے اعلیٰ ترین اصولوں پر ۔۔۔
🌹صلی اللّٰہ علیہ وسلم 🌹

ابوبکر قدوسی