سوال (5381)

ایک بھائی نے کسی پیر کی بیعت کی ہوئی ہے اور اب وہ بیعت کو ختم کرنا چاہتا ہے تو پیر صاحب کے بندوں نے یہ حدیث بھیجی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

“مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ لَقِيَ اللَّهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ، وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً” [صحيح مسلم: 1851]

اس حدیث کے متعلق بتا دیں اور یہ بھی بتا دیں کہ پیر مریدی کی اسلام میں کوئی حقیقت ہے؟

جواب

میرے علم کے مطابق شریعت میں صرف دو بندوں کی بیعت ہے، ایک حکومت وقت کی بیعت ہے، جب اس کے پاس کلی اختیار ہوں، وہ بیعت لے سکتا ہے کہ جب تک میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم نہ دوں، میری اطاعت کرو گے، دوسری بیعت سپہ سالار لے سکتا ہے کہ میرے ہاتھ پر بیعت کرو کہ خون کے آخری قطرے تک اللہ تعالٰی کے راستے میں لڑو گے، تیسری بیعت اسلام میں نہیں ہے۔
لوگ قرآن و حدیث کی نصوص کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں، یہ ایک بڑا المیہ ہے، یہ صحیح مسلم کی روایت ہے، لیکن یہاں پیروں کی بیعت نہیں ہے، میں نے جو اوپر ذکر کیا ہے، وہ بیعت مراد ہے، باقی وہ بیعت سے نکلنا چاہتا ہے، نکلے گا وہ شخص جو پابند اور اس چیز کا وجود ہے، پیروں کی بیعت کی شریعت میں کوئی چیز وارد نہیں ہوئی ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سائل: بیعت کے موضوع پر جماعت غرباء نے ایک کتاب شائع کی ہے، جس میں جماعت کے امیر کی بیعت پر دلائل دیے گئے ہیں؟
جواب: اللہ تعالیٰ آپ کو خیر و برکت عطا فرمائے اور آپ کی حفاظت فرمائے۔
گزارش یہ ہے کہ: كل حزبٍ بما لديهم فرحون، یعنی ہر جماعت اپنی بات پر خوش ہے۔
جہاں تک دلائل کا تعلق ہے، وہ تو مرزائی قادیانی بھی بہت سارے دے دیتے ہیں،
یہاں کسی مخصوص جماعت، تنظیم یا گروہ کی بات نہیں ہو رہی۔ یہ ایک کھلا فورم ہے اور یہاں اللہ کے فضل سے قرآن و حدیث کی روشنی میں آزادانہ گفتگو کی جاتی ہے۔
مجھے جو بات سمجھ آئی، میں نے اسی کے مطابق جواب دینے کی کوشش کی۔
اگر اس میں کوئی غلطی ہے تو وہ میری یا شیطان کی طرف سے ہے، اور اگر اس میں کوئی بہتری ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
یہاں میرے سمیت کوئی یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ حرفِ آخر ہے یا مکمل و کامل ہے۔
اگر آپ کو وہ کتاب میسر آتی ہے، تو آپ اسے پڑھ لیں۔ اگر اس میں موجود دلائل آپ کو مطمئن کرتے ہیں تو آپ کو اختیار ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سب کو خیر نصیب فرمائے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ