حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت جس رنگ میں بھی پیش کیے جائیں، وہ اپنی جگہ نہایت اہم ہیں کہ اس بارگاہ میں رنگِ گل سے زیادہ عقیدت و محبت کی وہ مہک دیکھی جاتی ہے جو دلِ امتی سے پھوٹتی ہے،
لیکن کچھ کلام تو خصوصی عطا ہوتے ہیں۔
زندگی سے کچھ ایسے بھرپور کہ ہر لفظ ”عینی مشاہدے“ کے اس دور میں مردہ پڑے تصور کو زندہ کردیتا ہے، جیسے ابوالحسن خاور بھائی کا درج ذیل کلام پہلے مصرعے سے ”مشتاق“ کی انگلی پکڑ ”زائر“ کے سامنے مؤدب بٹھا دیتا ہے اور بس پھر حرمین کے تذکرے کی فرمائش شروع!

شہر انوار میں گذرے ہوئے دن رات سنا
لوٹنے والے مدینے کی کوئی بات سنا
میں سناتا ہوں تجھے ہجر کے ماروں کا غم
تو حضوری میں ڈھلے وصل کے نغمات سُنا
کب دھڑکتا تھا، کہاں رکتا، کہاں اڑتا تھا
دل مشتاق کی نیرنگیٔ جذبات سنا
کب کہاں کون ملا یہ بھی اہم ہے لیکن
کس جگہ تجھ سے ہوئی تیری ملاقات سنا
کیا کبھی ایسا لگا دیکھ رہے ہیں سرکار؟
یار! کچھ ایسی بہت خاص عنایات سنا
دل پہ کیا گذری جب اس خاک پہ پاؤں رکھا
سانس لیتی ہوئی مٹی کی کرامات سنا
وہ جو گلزار ِ مدینہ پھریں ننگے پاؤں
ایسے عشاق کے آدابِ ملاقات سُنا
شہر طیبہ میں ہے ہر شخص کا اپنا میقات
تُو کہاں، کیسے، ہوا داخل میقات سنا
مسجدِ پاک کے دروازوں کے سرنامے بتا
اس کی دیواروں پہ لکھی ہوئی آیات سنا
آنکھ سے اشک گرے تھے کہ لبوں سے لکنت
پیش سرکار، وہ ٹھہرے ہوئے لمحات سنا
جب ترے ماتھے کے جنت نے لیے تھے بوسے
سبز غالیچوں پہ وہ لطف عبادات سنا
کیا وہاں آج بھی توسیع حرم جاری ہے؟
خشت و آہن سے لکھی جاتی یہ مشکوٰۃ سنا
اجنبی کو بھی بلائیں جو ”محمد“ کہہ کر
ایسے لوگوں کی مجھے اور روایات سنا
درد کے مارے وہ کشمیر و فلسطین کے لوگ
کیسے کرتے ہیں مدینے میں مناجات سُنا
تو یہاں آکے بھی شاید کہیں طیبہ ہی میں ہے
جسم اور روح کے یہ نیک تضادات سُنا
شہر انوار میں گزرے ہوئے دن رات سنا
لوٹنے والے مدینے کی کوئی بات سنا

محمد فیصل شہزاد