سوال          (40)

ایک نوجوان جس نے شادی کی ہے ، کافی عرصہ گزر گیا ان کو اولاد نہیں ہے ، اب وہ وہاں سعودیہ میں رہ رہے ہیں اور اپنا بھتیجا لے کے جانا چاہتے ہیں، کیا وہ بھتیجے کی ولدیت چینج کرسکتے ہیں ، کیونکہ اس حوالے سے کافی معاملات ہیں رہنمائی فرمادیں ؟

جواب

بھتیجے کو سعودیہ لے جانے کے لیے ڈاکومنٹس میں اپنی ولدیت لکھوانا، تو یہ کسی صورت جائز نہیں ہے۔ شریعت میں اس سے منع کیا گیا ہے۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے تھے، لوگوں نے انہیں زید بن محمد کہہ کر پکارنا شروع کردیا، تو اللہ تعالی نے اس سے منع کیا، اور فرمایا:

“اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِۚ”. [الاحزاب:5]

’’ان کو ان کے آباکی نسبت سے ہی پکارا جائے‘‘۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

“إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْفِرَى أَنْ يَدَّعِيَ الرَّجُلُ إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ”. [صحيح البخارى:3509]

’’سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ انسان اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی کو اپنا باپ خیال کرے‘‘۔

ایک اور روایت میں ہے:

“مَنْ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ”.[صحيح البخارى:4326]

’’جو اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کرے، تو اس پر جنت حرام ہے‘۔

ایک اور حدیث میں اس عمل کو ’کفر‘ اور ایسا کرنے والے کو ’جہنمی‘ قرار دیا گیا ہے۔[صحیح البخاری:3317]

لہذا یہ عمل شریعت کی رو سے جائز نہیں۔ اور اس میں کئی حکمتیں ہیں، کیونکہ اگر اس طرح ولدیت تبدیل کردی جائے، تو پھر نسب، لین دین، وراثت اور دیگر کئی احکامات خلط ملط ہوجاتے ہیں۔

فضیلۃ العالم محمد عمر اثری حفظہ اللہ