سوال (2922)
ایک ایم فل کی طالبہ جس کی والدہ اور بہنیں کماتی ہیں تو اس بچی کی یونیورسٹی کی فیس زکاۃ میں سے ادا کی جا سکتی ہے؟ جبکہ اس بچی کے مقابلے میں اور بے شمار سفید پوش غربت کی وجہ سے تعلیم پوری نہیں کر پا رہے ہیں؟
جواب
دنیاوی تعلیم کے لیے اہل علم زکاۃ کے پیسے کو لگانا جائز نہیں سمجھتے ہیں، یہ بات انتہائی مناسب ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
“لِلۡفُقَرَآءِ الَّذِيۡنَ اُحۡصِرُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ لَا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَ ضَرۡبًا فِى الۡاَرۡضِ” [سورة البقرة : 273]
«یہ صدقات ان محتاجوں کے لیے ہیں جو اللہ کے راستے میں روکے گئے ہیں، زمین میں سفر نہیں کر سکتے»
یہ ان لوگوں کے لیے نہیں ہے جو دنیاوی فنون حاصل کرکے دولتیں حاصل کرنا چاہتے ہیں، شہرت کماتے ہیں، لہذا بات واضح ہے، یہ آیت اصحاب صفہ کے بارے میں ہے، یہ بات امام ابن جوزی نے زاد المسیر کے اندر لکھی ہے، اصحاب صفہ کیا کرتے تھے، وہ سب کو پتا ہے، اگر زیادہ گہرائی میں جائیں گے تو زیادہ سے زیادہ پرائمری یا مڈل کی اجازت اہل علم دیں گے، کیونکہ وہ بنیادی تعلیم ہے، ورنہ سارے لوگ ٹوٹ پڑیں گے، آئے ٹی لیب پتا نہیں کیا کیا ادارے کھول کے زکاۃ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ بہرحال دنیاوی تعلیم کے لیے کسی کو زکوۃ دینا محل نظر ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اگر وہ مستحق زکوۃ ہے تو دی جا سکتی ہے، پھر زکوۃ مستحق ہونے کی وجہ سے دیں اور دیتے وقت متعین نہ کریں، وہ فیس بھرے یا راشن لے یہ اسکی مرضی ہے۔
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ