سوال (2900)
شیخ ایک بندہ صدقہ کرتا ہے، لیکن جب بھی صدقہ کرتا ہے، اس کے دل میں صرف مال کے بڑھنے والی احادیث گردش کرتی ہیں کہ صدقہ کرتا ہوں مال بڑھے گا تو سوال یہ ہے کہ کیا صرف اس نیت سے صدقہ کیا جائے تو قیامت کے دن جو اجر و ثواب اور صدقہ و خیرات کی فضیلت ہے، وہ اس آدمی کو نصیب ہوگی یا نہیں یا اس کو اپنی نیت درست کرنی ہوگی وضاحت فرما دیں۔
جواب
دین اسلام میں نیک اعمال کے لیے دو بنیادیں ہیں، دو اساس ہیں، ایک ایمان اور دوسرا احتساب ہے، نمبر ایک ایمان اور اسلام کا ایک جز قرار دے کر کوئی عمل اختیار کرنا چاہیے، خواہ صدقہ و خیرات ہو یا کچھ اور ہو، دوسرا اس پر اجر کی امید رکھنی چاہیے، اجر میں وہ فضائل شامل ہیں، جو ذکر کیے گئے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، باقی ان دونوں چیزوں کا خیال رکھیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
صدقے کے حوالے سے دین ودنیا دونوں کے فوائد کے حصول کی نیت کی جا سکتی ہے۔
لیکن صرف اور صرف زیادتی مال کی نیت ہی سے صدقہ دینا صحیح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَالآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى۔
اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
إنما الأعمال بالنيّات، وإنما لكل امريء مانوى، فمن كانت هجرته إلى الله ورسوله، فهجرته إلى الله ورسوله، ومن كانت هجرته لدنيا يصيبها، أو امرأة ينكحها، فهجرته إلى ما هاجر إليه۔
ایک مومن کے جتنے بھی اعمال ہوتے ہیں- چاہے ان کی منفعت دنیاوی اعتبار سے نصوص سے ثابت ہو یا دینی اعتبار سے- وہ لازمی ہے کہ خالصتا لوجه الله تعالى ہونے چاہیے۔ اس قاعدے کو عقائد کی کتب میں علماء کرام نے مفصلا بیان کیا ہے۔ لہذا زیادہ اولی اور افضل یہی ہے کہ صدقے کو صرف اور صرف اخروی ثواب کے لیے مخصوص کیا جائے۔
والله تعالى أعلم والرد إليه أسلم.
فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ
ایک نیکی کے دو اجر ہوتے ہیں ایک دنیا میں ایک آخرت میں حدیث میں ہے۔
ان الله لا يظلم مؤمنا حسنة يعطي بها في الدنيا ويجزي بها في الاخرة
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
پیارے بھائی پہلی بات یہ طے ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی بات کو سچا مانتا ہے تبھی وہ صدقہ کر رہا ہے کہ مال بڑھے گا تو اس بندے کو یہ بھی پتا ہو گا کہ اسی رسول اللہ ﷺ نے جو قرآن ہمیں دیا ہے اس میں جگہ جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں انکی مثال اس دانے کی طرح ہے جس سے ساتھ سو دانے نکلتے ہیں جو آخرت میں ملیں گے، پس یاد رکھیں اگر وہ رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی اس آیت مثل الذین ینفقون اموالھم فی سبیل اللہ کمثل حبۃ۔۔۔۔ پہ یقین نہیں رکھتا تو پھر تو اسکو کسی صدقہ کا کوئی ثواب نہیں ملے گا لیکن اگر وہ اس آیت پہ بھی یقین رکھتا ہے اور پھر صدقہ کرتا ہے تو نیت تو دل کی بات ہوتی ہے یعنی وہ دل سے یہ مانتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی جہاں یہ بات سچی ہے کہ صدقہ سے مال بڑھتا ہے وہاں یہ بات بھی سچی ہے کہ آخرت میں سات سو یا اس سے بھی زیادہ اجر ملے گا تو پھر تو اسکو ثواب ملے گا، لیکن مجھے یہ سمجھنے میں بہت حیرانی ہو رہی ہے کہ ایک مسلمان اس پہ تو یقین رکھتا ہو کہ اس صدقہ سے مال بڑھے گا لیکن اس پہ یقین ہی نہ رکھتا ہو کہ یہ آگے بھی فائدہ دے گا ایسا ممکن نہیں ہے، ہاں یہ اگر آپ کہ رہے ہیں کہ اسکو آخرت کی فکر ہی نہیں یعنی وہ کہتا ہے کہ آخرت میں مجھے کچھ ملے یا نہ ملے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے بس دنیا میں پیسے بڑھنے چاہئیں تو پھر تو اسکا ایمان ہی درست نہیں اسکو تو کسی عمل کا فائدہ نہیں ہو گا لیکن اس میں کنفیوژن ہے مجھے۔
فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ