“مال و دولت اللہ کا فضل ہے”
یاد رکھیں کہ مال و دولت بذات خود بری چیز نہیں ہے، نہ ہی مالدار لوگ برے ہوتے ہیں، اگر یہ مال حلال آمدن سے آئے تو مال کے کئی فوائد ہیں، باقی یہ بات مسلم ہے کہ حرام آمدن سے کمایا ہوا مال وبال ہے، مال کے ذریعے انسان کئی خیر کے کام کر سکتا ہے، دنیا و آخرت کی بھلائیوں کو سمیٹ سکتا ہے، جنت کا سودا بھی مال کے ذریعے کر سکتا ہے۔
(1) “اسلام ترک الدنیا کی تعلیم نہیں دیتا ہے”:
دیگر مذاہب کی طرح اسلام ترک دنیا کی تعلیم نہیں دیتا ہے، باقی مذاہب میں نیک اور متقی انسان اس کو کہا جاتا ہے، جو پوری دنیا کو ترک کرکے آ کر عبادت خانے میں بیٹھ جائے، اسلام میں یہ تعلیم نہیں ہے، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:
“وَلَا تَنۡسَ نَصِيۡبَكَ مِنَ الدُّنۡيَا” [القصص: 77]
«اور دنیا سے اپنا حصہ مت بھول»
اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کثرت کے ساتھ مندرجہ ذیل دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے دنیا و آخرت کی بھلائی نصیب فرما۔
“رَبَّنَآ اٰتِنَا فِى الدُّنۡيَا حَسَنَةً وَّفِى الۡاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ” [البقرة: 201]
«اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا»
(2) “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غِنیٰ کے لیے التجائیں”
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ:
“أَنَّهُ کَانَ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ الْهُدَی وَالتُّقَی وَالْعَفَافَ وَالْغِنَی” [صحيح مسلم: 2721]
«آپ صلی اللہ علیہ وسلم”اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ الْهُدَی وَالتُّقَی وَالْعَفَافَ وَالْغِنَی” دعا فرماتے تھے اے اللہ میں تجھ سے ہدایت تقوی پاکدامنی اور غنی مانگتا ہوں»
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
“أَنَّ مُكَاتَبًا جَاءَهُ، فَقَالَ: إِنِّي قَدْ عَجَزْتُ عَنْ كِتَابَتِي فَأَعِنِّي، قَالَ: أَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ عَلَّمَنِيهِنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كَانَ عَلَيْكَ مِثْلُ جَبَلِ صِيرٍ دَيْنًا أَدَّاهُ اللَّهُ عَنْكَ؟ قَالَ: قُلْ: اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ، وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ” [سنن الترمذي: 3563، حسن]
«ایک مکاتب غلام نے ان کے پاس آ کر کہا کہ میں اپنی مکاتبت کی رقم ادا نہیں کر پا رہا ہوں، آپ ہماری کچھ مدد فرما دیجئیے تو انہوں نے کہا: کیا میں تم کو کچھ ایسے کلمے نہ سکھا دوں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائے تھے؟ اگر تیرے پاس «صیر» پہاڑ کے برابر بھی قرض ہو تو تیری جانب سے اللہ اسے ادا فرما دے گا، انہوں نے کہا: کہو: «اللهم اکفني بحلالک عن حرامک وأغنني بفضلک عمن سواک» اے اللہ! تو ہمیں حلال دے کر حرام سے کفایت کر دے، اور اپنے فضل (رزق، مال و دولت) سے نواز کر اپنے سوا کسی اور سے مانگنے سے بے نیاز کر دے»
ملاحظہ: اگر مال و دولت بری چیز ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غنی کے لیے دعائیں نہیں کرتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غنی کے لیے دعائیں کرنا یہ دلیل ہے کہ مال و دولت بری چیز نہیں ہے۔
(3) “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر سے پناہ مانگنا”:
مسلم بن ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے والد ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نماز کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے۔
“اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكُفْرِ وَالْفَقْرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، فَكُنْتُ أَقُولُهُنَّ، فَقَالَ أَبِي: أَيْ بُنَيَّ، عَمَّنْ أَخَذْتَ هَذَا، قُلْتُ: عَنْكَ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُهُنَّ فِي دُبُرِ الصَّلَاةِ” [سنن النسائي: 1348]
“اللہم إني أعوذ بک من الکفر والفقر و عذاب القبر اے اللہ میں کفر سے، محتاجی سے اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں تو میں بھی انہیں کہا کرتا تھا، تو میرے والد نے کہا: میرے بیٹے! تم نے یہ کس سے یاد کیا ہے؟ میں نے کہا: آپ سے، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں نماز کے بعد کہا کرتے تھے”
ملاحظہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا میں کفر و فقر کو ملا دیا ہے، اس لیے کہ فقر کفر کی طرح خطرناک ہے، کیونکہ فقیر بندہ ایک ایک لقمے کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے، جب اپنے بچوں کو فقیر ہاتھ پھیلاتے دیکھتا ہے، تو اس سے یہ منظر کیسے برداشت ہوگا، فقیر سے یہ بعید نہیں ہے کہ وہ حرام کھائے، فقیر حلت و حرمت کا لحاظ نہیں رکھے گا۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر سے پناہ طلب کی ہے۔
(4) “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے صحابہ کو مالداری کی دعائیں”:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مال کے حوالے سے دعائیں دی تھی۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری والدہ ام سلیم رضی اللہ عنھا نے کہا: یا رسول اللہ! انس رضی اللہ عنہ آپ کا خادم ہے اس کے لیے دعا فرما دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تھی کہ
“اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ، وَبَارِكْ لَهُ فِيمَا أَعْطَيْتَهُ”
«اے اللہ! اس کے مال و اولاد کو زیادہ کر اور جو کچھ تو نے اسے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما» [صحيح البخاري: 6344]
(5) “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی کو مکمل مال وصیت کرنے سے روکنا”
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
“جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، وَهُوَ يَكْرَهُ أَنْ يَمُوتَ بِالْأَرْضِ الَّتِي هَاجَرَ مِنْهَا، قَالَ: يَرْحَمُ اللَّهُ ابْنَ عَفْرَاءَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ، قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَالشَّطْرُ، قَالَ: لَا، قُلْتُ: الثُّلُثُ، قَالَ: فَالثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ فِي أَيْدِيهِمْ، وَإِنَّكَ مَهْمَا أَنْفَقْتَ مِنْ نَفَقَةٍ فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ حَتَّى اللُّقْمَةُ الَّتِي تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ، وَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَكَ فَيَنْتَفِعَ بِكَ نَاسٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ يَوْمَئِذٍ إِلَّا ابْنَةٌ” [صحيح البخاري: 2742]
«نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں میری عیادت کو تشریف لائے، میں اس وقت مکہ میں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سر زمین پر موت کو پسند نہیں فرماتے تھے جہاں سے کوئی ہجرت کر چکا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ ابن عفراء (سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ) پر رحم فرمائے، میں عرض کیا یا رسول اللہ! میں اپنے سارے مال و دولت کی وصیت کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نہیں، میں نے پوچھا پھر آدھے کی کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی یہی فرمایا نہیں، میں نے پوچھا پھر تہائی کی کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تہائی کی کر سکتے ہو اور یہ بھی بہت ہے، اگر تم اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب تم اپنی کوئی چیز (اللہ کے لیے خرچ کرو گے) تو وہ خیرات ہے، یہاں تک کہ وہ لقمہ بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے (وہ بھی خیرات ہے) اور (ابھی وصیت کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں) ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں شفاء دے اور اس کے بعد تم سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہو اور دوسرے بہت سے لوگ (اسلام کے مخالف) نقصان اٹھائیں۔ اس وقت سعد رضی اللہ عنہ کی صرف ایک بیٹی تھی»
(6) “قرآن کا مال کو فضل اور خیر کہنا”
(1) ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللّٰهِ وَاذۡكُرُوا اللّٰهَ كَثِيۡرًا لَّعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ” [الجمعة: 10]
«پھر جب نماز پوری کر لی جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کے فضل سے (حصہ) تلاش کرو اور اللہ کو بہت یاد کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ»
مندرجہ بالا آیت میں مال کو فضل کہا گیا ہے کہ جب تم جمعے کی نماز سے فارغ ہو جائے تو زمین پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل یعنی مال تلاش کرو۔
(2) ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“كُتِبَ عَلَيۡكُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الۡمَوۡتُ اِنۡ تَرَكَ خَيۡرَا اۨلۡوَصِيَّةُ لِلۡوَالِدَيۡنِ وَالۡاَقۡرَبِيۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِۚ حَقًّا عَلَى الۡمُتَّقِيۡنَؕ” [البقرة: 180]
«تم پر لکھ دیا گیا ہے، جب تم میں سے کسی کو موت آپہنچے، اگر اس نے کوئی خیر چھوڑی ہو، اچھے طریقے کے ساتھ وصیت کرنا ماں باپ اور رشتہ داروں کے لیے، متقی لوگوں پر یہ لازم ہے»
مندرجہ بالا آیت میں مال کو خیر کہا گیا ہے، موت کے وقت خیر یعنی مال چھوڑا ہو تو وہ وصیت کرے۔
(7) “مال: اعانت کا مؤثر وسیلہ”
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“وَّيُمۡدِدۡكُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّبَنِيۡنَ وَيَجۡعَلۡ لَّـكُمۡ جَنّٰتٍ وَّيَجۡعَلۡ لَّـكُمۡ اَنۡهٰرًا” [نوح: 12]
«اور وہ مالوں اور بیٹوں کے ساتھ تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں باغات عطا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کردے گا»
(8) “مال کی حفاظت پر شہادت کا درجہ”:
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
“مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ” [صحيح البخاري: 2480]
«جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل کردیا گیا وہ شہید ہے»
(9) “کمانے والا، شریعت کی نظر میں معزز”:
یاد رکھیں کہ مال انسانی ضرورت ہے اور مال مقاصد شریعہ میں سے ہے، آپ کا کھانا پینا، علاج معالجہ اور تعلیم مال سے وابستہ ہے، اس لیے ہر انسان کا اتنا مال کمانا واجب ہے کہ اس مال سے اس کی ضرورتیں پوری ہوں۔ وہ اپنی، بچوں کی اور گھر والوں کی ضروریات احسن درجے سے مکمل کر سکے۔ اس لیے شریعت کمانے والے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“لَأَنْ يَأْخُذَ أَحَدُكُمْ أَحْبُلَهُ، فَيَأْتِيَ الْجَبَلَ، فَيَجِئَ بِحُزْمَةِ حَطَبٍ عَلَى ظَهْرِهِ فَيَبِيعَهَا فَيَسْتَغْنِيَ بِثَمَنِهَا، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ النَّاسَ أَعْطَوْهُ، أَوْ مَنَعُوهُ” [سنن ابن ماجة: 1836]
«اگر تم میں سے کوئی اپنی رسی لے اور پہاڑ پر جا کر ایک گٹھا لکڑیوں کا اپنی پیٹھ پر لادے، اور اس کو بیچ کر اس کی قیمت پر قناعت کرے، تو یہ اس کے لیے لوگوں کے سامنے مانگنے سے بہتر ہے کہ لوگ دیں یا نہ دیں»
دیکھیں کہ اگر مانگنے پر دیا جائے تو مانگنے والی کی ایک ذلت ہوئی، اور نہ دیا جائے تو دوہری ذلت مانگنے والی کی، اور مانگنے پر نہ ملنے کی، بر خلاف اس کے اپنی محنت سے کمانے میں کوئی ذلت نہیں اگرچہ مٹی ڈھو کر یا لکڑیاں چن کر اپنی روزی حاصل کرے، یہ جو مسلمان خیال کرتے ہیں کہ پیشہ یا محنت کرنے میں ذلت اور ننگ و عار ہے، یہ سب شیطانی وسوسہ ہے، اس سے زیادہ ننگ و عار اور ذلت و رسوائی سوال کرنے اور ہاتھ پھیلانے میں ہے، بلکہ پیشے اور محنت میں گو وہ کتنا ہی حقیر ہو بشرطیکہ شرع کی رو سے منع نہ ہو کوئی ذلت نہیں ہے۔
(10) “اسلام کی نظر میں سوال کرنا معیوب”:
اسلام نے سوال کرنے والے کی حوصلہ افزائی نہیں ہے، بلکہ اس کو معیوب سمجھا ہے، اس لیے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچنا چاہیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سوال کرنے اور ہاتھ پھیلانے سے منع فرمایا ہے۔
(1) سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“مَنْ يَتَقَبَّلُ لِي بِوَاحِدَةٍ، وَأَتَقَبَّلُ لَهُ بِالْجَنَّةِ، قُلْتُ: أَنَا، قَالَ: لَا تَسْأَلِ النَّاسَ شَيْئًا، قَالَ: فَكَانَ ثَوْبَانُ يَقَعُ سَوْطُهُ وَهُوَ رَاكِبٌ، فَلَا يَقُولُ لِأَحَدٍ نَاوِلْنِيهِ، حَتَّى يَنْزِلَ فَيَأْخُذَهُ” [سنن ابن ماجة: 1837، صحيح]
«کون میری ایک بات قبول کرتا ہ ے؟ اور میں اس کے لیے جنت کا ذمہ لیتا ہوں، میں نے عرض کیا: میں قبول کرتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں سے کوئی چیز مت مانگو، چناچہ ثوبان رضی اللہ عنہ جب سواری پر ہوتے اور ان کا کوڑا نیچے گر جاتا تو کسی سے یوں نہ کہتے کہ میرا کوڑا اٹھا دو، بلکہ خود اتر کر اٹھاتے»
یہ ایمان و توکل علی اللہ کا بڑا اعلیٰ درجہ ہے حالانکہ اس قسم کا سوال مباح اور جائز ہے، مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان بڑی تھی انہوں نے مخلوق سے مطلقاً سوال ہی چھوڑ دیا، صرف خالق سے سوال کرنے ہی کو بہتر سمجھا ہے۔
(2) سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
“مَنْ سَأَلَ النَّاسَ أَمْوَالَهُمْ تَكَثُّرًا، فَإِنَّمَا يَسْأَلُ جَمْرَ جَهَنَّمَ، فَلْيَسْتَقِلَّ مِنْهُ، أَوْ لِيُكْثِرْ” [سنن ابن ماجة: 1838، صحيح ]
«جس نے لوگوں سے مال بڑھانے کے لیے مانگا، تو وہ جہنم کے انگارے مانگتا ہے، چاہے اب وہ زیادہ مانگے یا کم مانگے»
(11) “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مالی پس منظر”:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود تاجر اور مالدار تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی مالدار عورت سے ہوئی تھی، مکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مالدار ہی تھے، باقی یہ بات ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت کی تھی، تو ہجرت کے بعد چند سال بڑے مشکل سے گذرے، ظاہر کہ اتنے لوگ جنہوں نے اپنے گھر و مال اللہ کی رضامندی کے لیے چھوڑ دیے ہوں، ان کو سنبھلنے میں وقت لگ سکتا ہے، مدینہ میں ابتدائی ایام بڑے مشکل تھے، خیبر کے بعد مسلمان آسودہ حال ہوگئے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ، مال فیء اور باغ فدک بھی تھا۔ معلوم یہ ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مالدار تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھی، ان تمام کا خرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمے داری تھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ماہ رمضان میں تیز آندھی کی طرح خرچ کرنا، یہ تمام دلائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مال سے نوازا تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب اللہ کے راستے میں لوٹا دیتے تھے۔
(12) “مال سخاوت کا وسیلہ”:
یاد رہے کہ مال سخاوت کا ایک اہم ذریعہ ہے، مالدار انسان فقیر کے مقابلے میں کئی نیکیاں سمیٹ سکتا ہے، مثلاً: مالدار انسان خود بھی روزہ رکھے اور شام کے وقت تیس بندوں کو افطاری کروائے تو اس نے گویا خود کے روزے کے علاؤہ تیس روزوں کا ثواب کمایا ہے۔ اس کے علاؤہ کئی ایسے مواقع موجود ہیں، جن کے ذریعے مالدار اپنے نامہ اعمال کو نیکیوں سے بھر سکتا ہے۔
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا” [سنن الترمذي: 807]
«جس نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو اسے بھی اس کے برابر ثواب ملے گا، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں سے ذرا بھی کم کیا جائے»
(13) “مال کے ذریعے جنت کی خریداری”:
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا هَلۡ اَدُلُّكُمۡ عَلٰى تِجَارَةٍ تُنۡجِيۡكُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِيۡمٍ ۞ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَتُجَاهِدُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ بِاَمۡوَالِكُمۡ وَاَنۡفُسِكُمۡؕ ذٰلِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَۙ ۞ [الصف : 10,11]
«اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کیا میں تمھاری ایسی تجارت کی طرف رہنمائی کروں جو تمھیں دردناک عذاب سے بچا لے؟ تم اللہ اور اس کے رسو ل پر ایمان لاؤ اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرو، یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو»
(14) “دیندار کے ہاتھوں میں دولت، امت کی بھلائی”:
معاشرے میں مال دینداروں کے پاس ہونا ضروری ہے، دیندار لوگوں کی معیشت اچھی ہونی چاہیے، کیونکہ دینداروں کے ہاتھ میں مال کے کئی اجتماعی فوائد ہیں، اور وہی مال کے حقیقی محافظ ہیں، اس سے معاشرہ خوشحال رہے گا، صاحب نصاب زکاۃ فقراء کو ادا کریں گے، مال فضولیات اور غلط کاموں میں استعمال نہیں ہوگا، بلکہ دیندار مال مدارس، مساجد اور فقراء پر صرف کریں گے، جس طرح صحابہ کرام نے مال اللہ کے راستے خرچ کیا تھا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
«قَدِمَ عَلَيْنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَآخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ وَكَانَ كَثِيرَ الْمَالِ، فَقَالَ سَعْدٌ: قَدْ عَلِمَتْ الْأَنْصَارُ أَنِّي مِنْ أَكْثَرِهَا مَالًا سَأَقْسِمُ مَالِي بَيْنِي وَبَيْنَكَ شَطْرَيْنِ، وَلِي امْرَأَتَانِ فَانْظُرْ أَعْجَبَهُمَا إِلَيْكَ فَأُطَلِّقُهَا حَتَّى إِذَا حَلَّتْ تَزَوَّجْتَهَا، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ فَلَمْ يَرْجِعْ يَوْمَئِذٍ حَتَّى أَفْضَلَ شَيْئًا مِنْ سَمْنٍ وَأَقِطٍ، فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى جَاءَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ وَضَرٌ مِنْ صُفْرَةٍ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَهْيَمْ، قَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: مَا سُقْتَ فِيهَا، قَالَ: وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، أَوْ نَوَاةً مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ: أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ. [صحيح البخاري: 3781]
«جب عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ (مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور سعد بن ربیع ؓ کے درمیان بھائی چارہ کرا دیا ۔ سعد رضی اللہ عنہ بہت دولت مند تھے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا: انصار کو معلوم ہے کہ میں ان میں سب سے زیادہ مالدار ہوں اس لیے میں اپنا آدھا آدھا مال اپنے اور آپ کے درمیان بانٹ دینا چاہتا ہوں اور میرے گھر میں دو بیویاں ہیں جو آپ کو پسند ہو میں اسے طلاق دے دوں گا اس کی عدت گزر جانے پر آپ اس سے نکاح کرلیں۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ تمہارے اہل و مال میں برکت عطا فرمائے، (مجھ کو اپنا بازار دکھلا دو ) پھر وہ بازار سے اس وقت تک واپس نہیں آئے جب تک کچھ گھی اور پنیر بطور نفع بچا نہیں لیا۔ تھوڑے ہی دنوں کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وہ حاضر ہوئے تو جسم پر زردی کا نشان تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے؟ بولے کہ میں نے ایک انصاری خاتون سے شادی کرلی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا مہر کیا دیا ہے؟ بولے ایک گٹھلی کے برابر سونا یا (یہ کہا کہ) سونے کی ایک گٹھلی دی ہے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا اب ولیمہ کرو خواہ ایک بکری ہی سے ہو۔»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
“كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ الْأَنْصَارِ بِالْمَدِينَةِ مَالًا مِنْ نَخْلٍ، وَكَانَ أَحَبُّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءَ، وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ، قَالَ أَنَسٌ: فَلَمَّا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ [سورة آل عمران آية: 92] قَامَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَقُولُ: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ [سورة آل عمران آية: 92] وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ، وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ أَرْجُو بِرَّهَا، وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَخٍ ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ، وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ: وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الْأَقْرَبِينَ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَبَنِي عَمِّهِ” [صحيح البخاري: 1461]
«ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار تھے۔ اپنے کھجور کے باغات کی وجہ سے۔ اور اپنے باغات میں سب سے زیادہ پسند انہیں بیرحاء کا باغ تھا۔ یہ باغ مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا میٹھا پانی پیا کرتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی “لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون” یعنی تم نیکی کو اس وقت تک نہیں پاسکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو، یہ سن کر ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پاسکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو۔ اور مجھے بیرحاء کا باغ سب سے زیادہ پیارا ہے۔ اس لیے میں اسے اللہ تعالیٰ کے لیے خیرات کرتا ہوں۔ اس کی نیکی اور اس کے ذخیرہ آخرت ہونے کا امیدوار ہوں۔ اللہ کے حکم سے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مناسب سمجھیں اسے استعمال کیجئے۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خوب! یہ تو بڑا ہی آمدنی کا مال ہے۔ یہ تو بہت ہی نفع بخش ہے۔ اور جو بات تم نے کہی میں نے وہ سن لی۔ اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو دے ڈالو۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا۔ یا رسول اللہ! میں ایسا ہی کروں گا۔ چناچہ انہوں نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا کے لڑکوں کو دے دیا»
(15) “اسلام کی تقویت میں مالی تعاون کا کردار”
دین اسلام میں جہاں صحابہ کی صداقت اور شجاعت کام آئی وہاں صحابہ کا مال بھی کام آیا تھا، کیونکہ بغیر معیشت کے جنگیں نہیں لڑی جاتی ہیں، بدر، احد، احزاب اور تبوک ان سب میں مال صرف ہوا تھا، کیونکہ جنگ میں مجاہدین کے لیے اسلحہ، سواری اور کھانے پینے کا بندوست کرنا یہ سب مال و دولت سے ہوتا ہے، ان تمام جنگوں کے اندر صحابہ کرام نے اپنے مال کو خرچ کیا تھا، آج بھی دین اسلام کو تقویت دینے لیے مال صرف کرنے کی ضرورت ہے، مدارس و مساجد اور علماء پر مال صرف کیا جائے تاکہ یہ لوگ دین کا محافظ بنیں۔
سیدنا عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
“جَاءَ عُثْمَانُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَلْفِ دِينَارٍ، قَالَ الْحَسَنُ بْنُ وَاقِعٍ: وَكَانَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ مِنْ كِتَابِي فِي كُمِّهِ حِينَ جَهَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَيَنْثُرُهَا فِي حِجْرِهِ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَلِّبُهَا فِي حِجْرِهِ وَيَقُولُ: مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْيَوْمِ مَرَّتَيْنِ” [سنن الترمذي: 3701، حسن]
«عثمان رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ہزار دینار لے کر آئے، (حسن بن واقع جو راوی حدیث ہیں کہتے ہیں: دوسری جگہ میری کتاب میں یوں ہے کہ وہ اپنی آستین میں لے کر آئے)، جس وقت انہوں نے جیش عسرہ کو تیار کیا، اور اسے آپ کی گود میں ڈال دیا، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے اپنی گود میں الٹتے پلٹتے دیکھا اور یہ کہتے سنا کہ آج کے بعد سے عثمان کو کوئی بھی برا عمل نقصان نہیں پہنچائے گا، ایسا آپ نے دو بار فرمایا»
(16) “جب مال بے دین کے ہاتھ میں ہو”
جب معاشرے میں بے دین لوگ مالدار بنیں گے تو اس کا معاشرے کو بڑا نقصان ہوگا، برائیوں کو فروغ ملے گا، مال فضولیات، عیش و عشرت پر صرف ہوگا۔ بلکہ وہ مال کے ذریعے فخر محسوس کریں گے، فقراء و مساکین کو اہمیت نہ دیں گے، جس طرح قارون کے پاس مال تھا، لیکن اس مال کا موسی علیہ السلام کی قوم کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا، وجہ یہ تھی کہ وہ بے دین اور سرمایہ دار منافق تھا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“اِنَّ قَارُوۡنَ كَانَ مِنۡ قَوۡمِ مُوۡسٰى فَبَغٰى عَلَيۡهِمۡۖ وَاٰتَيۡنٰهُ مِنَ الۡكُنُوۡزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَـتَـنُوۡٓاُ بِالۡعُصۡبَةِ اُولِى الۡقُوَّةِ اِذۡ قَالَ لَهٗ قَوۡمُهٗ لَا تَفۡرَحۡ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡفَرِحِيۡنَ” [القصص: 76]
«بے شک قارون موسیٰ کی قوم سے تھا، پس اس نے ان پر سرکشی کی اور ہم نے اسے اتنے خزانے دیے کہ ان کی چابیاں ایک طاقت ور جماعت پر بھاری ہوتی تھیں۔ جب اس کی قوم نے اس سے کہا مت پھول، بے شک اللہ پھولنے والوں سے محبت نہیں کرتا»
تحریر: افضل ظہیر جمالی