معاش نبویﷺ از ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی

بہت شاندار اور زبردست کتاب جو سیرت کے ہر قاری کو بالخصوص اور ہر مسلمان کو بالعموم پڑھنی چاہیے اس کتاب نے معاش رسول ﷺ کے حوالے سے بے شمار غلط فہمیوں کا ازالہ کیا گو کہ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے بہت سارے مقامات پر تشنگی کا احساس ہوا خیر یہ آغاز ہے ان شاء اللہ۔
ہمارے بعض ااصحاب منبر رسول اللہﷺ کی غربت اور فقیری کو جس انداز میں بیان کرتے ہیں وہ کتاب و سنت سے متصادم فکر ہے۔

ولا تنس نصیبک من الدنیا
ربنا آتنا فی الدنیا حسنہ ۔۔۔

اور اسی طرح کی دیگر نصوص جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مال اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اگر حلال راستے سے حاصل ہوا ہو خواہ کروڑوں ہوں یا اربوں۔۔۔
بہرحال اس کتاب کے مختلف مقامات سے اقتباسات کے ساتھ یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے صاحب مزید کتاب کا مطالعہ کریں از حد مفید ثابت ہو گا ان شاء اللہ۔
وسائلِ دولت کا حصول و استعمال ناپسندیدہ نہیں بلکہ انکا ارتکاز و استحصال اور استحصالی استعمال ممنوع ہے۔
قرآن و احادیث میں غنا کو فضلِ الٰہی قرار دیا گیا ہے اور کہیں بھی فقر و فاقہ کو بطور اصولِ معاش ممدوح نہیں سمجھا گیا۔
لیکن غیر اسلامی اثرات اور انسانی فطرت کے تجاوزات نے معاش کے باب میں افراط و تفریط پر مبنی رویہ پیدا کیا۔ جس کے بعد دولت کا حصول و استعمال قابلِ نفریں اور فاقہ کی زندگی کو نصب العین گردانا گیا ۔مسلمانوں نے بھی فقیرانہ زندگی کو مطلوبِ اسلام بنا کر اور سمجھ کر رسولِ اللہ ﷺ اور صحابہ کرام اور قرون خیر کے مسلمانوں کی معاشی زندگی کو اسی پیمانہ غیر سے ناپنا شروع کیا اور فقیری و درویشی کا اوجِ کمال سمجھ لیا. معاشی فارغ البالی کو ناپسندیدہ، اقتصادی بہبود کو غیر مطلوب اور دولتمندی کے حصول کو ناجائز و غیر اسلامی سمجھا۔
اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ رسول اکرمﷺبالعموم فقروفاقہ کی زندگی گزارنا مطلوب اور عین تقاضائے اسلام سمجھتے تھے اور دولتمندی اور فارغ البالی سے عمداََ اجتناب کرتے تھے۔
ایک منفی نتیجہ یہ بھی نکلا کہ خلفائے اسلام و قائدین و امراء ملت اسلامی کی زندگی میں معاشی فارغ البالی اور دولت مندی کا ثبوت ملا تو ان کو ہدفِ ملامت بنا لیا گیا. ان حضرات کے خیال میں یہ عیش و عشرت کی زندگی تھی اس لئیے غیر اسلامی اور لائق اجتناب-
معاش رسول ﷺ کےمطابق رسول اکرمﷺ کا تعلق ایک کمزور معاشی طبقہ سے تھا ۔یا پھر یہ کہا گیا کہ آپ ﷺنسبی اور معاشرتی اعتبار سے اعلیٰ خاندان کے فرد تھے لیکن متعدد اسباب سے جن میں آپ کی یتیمی ویسیری کو خاصی اہمیت بلکہ بنیادی حیثیت حاصل تھی ،آپ کی معاشی حالت بہتر نہ تھی، بلکہ بعض حضرات کے ہاں کچھ ایسا تاثر پایا جاتا ہے کہ اقتصادی ابتری منشائے الٰہی کا سبب تھی۔ یہ نقطہء نظر تقریباً تمام مسلمان مؤرخین کی کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ان نظریات کا خالص نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی معاشی حالت شروع سے دگرگوں اور کمزور تھی ، اور وہ چند مراحل کے سوا فقروفاقہ کی زندگی میں ڈھلتی گئی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ رسول اکرمﷺکے معاش و اقتصاد کی صحیح تحقیق کی جائے کہ نبوی معاشی زندگی ہی اسلام کی اقتصادی و معاشی حیات کے اصول فراہم کرتی ہے۔
مزعومہ مفروضات بابت معاش نبوی ﷺ
1) رسول اکرمﷺ کا تعلق ایک کمزور معاشی طبقہ سے تھا
2) رسول اکرم ﷺ کی معاشی حالت شروع سے دگرگوں اور کمزور تھی
3) آپ نے کسمپرسی میں اور دوسرے کے سہارے زندگی گزاری
4) خدیجہ سے شادی کے بعد انکی دولت سے آپکی معاشی زندگی بہتر ہوئی
5) رسول اللہﷺ کے ذرائع معاش صرف مالِ غنیمت تھا
ان تمام مفروضات پر تحقیق کے لیے درج ذیل نکات کے تحت مطالعہ کیا جائے
1) خاندانی ترکہ:
“عبداللہ بن عبدالمطلب نے ایک باندی ام ایمن ، پانچ اراک کھانے والے اونٹ (اجمال اوارک) اور بکریوں کا ایک ریوڑ (قطعۃ غنم ) چھوڑا جس کے رسول ﷺ وارث ہوئے ۔”( ابن سعد الطبقات الکبریٰ)
اس کے علاوہ کچھ ایسی روایات بھی ملتی ہیں جن کی بناء پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ والدین کی منقولہ جائداد بھی انکی وفات کے بعد آپ ﷺ کوملی تھی۔ مثال کے طور پر شادی کے بعد “جناب عبداللہ نے سیدۃ آمنہ کو مکان مہیا کیا اور دونوں نے ازدواجی زندگی کاآغاز کیا۔( ابن اسحاق (اردو) ص33)”
صحاح کی کئی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کو اپنے ترکہ میں قدیم مکان بھی ملا تھا۔ جسے آپ کے عم زاد بھائی عقیل بن ابی طالب نے اپنے زمانہ کفر میں غالباً آپ کی ہجرت مدینہ کے فوراً بعد ابوسفیان کے ہاتھوں بیچ ڈالا تھا۔( بخاری)
عبداللہ بن عبدالمطلب کی وفات کے ضمن میں یہ ذکر بھی آتا ہے کہ وہ برائے تجارت گئے تھے اور قریشی قافلہ میں اہل مکہ کے کچھ لوگوں کا سامانِ تجارت لے کر گئے تھے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ نہ صرف ان کے آخری سفرِ تجارت کامال اور نفع ان کےیتیم ویسیر فرزند کے حصہ میں آیا ہوگا بلکہ انکی تجارت سے حاصل کردہ نقد وجنس پر مشتمل کمائی بھی ملی ہوگی۔ اس کی تائید بعض اور روایات و قرائن سے ہوتی ہے۔
2) اوّلین خود کفالتی:
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بکریاں چرائیں۔امام بخاری اور امام ابن ماجہ کی ایک روایت ہے کہ آپ نے خود ایک بار ارشاد فرمایا تھا کہ میں بکریاں (غنم) قراریط پر مکہ والوں کے لیے چرایا کرتا تھا۔ بخاری اور ابن ماجہ نے اس کو بالترتیب “کتاب الاجارۃ” اور “کتاب التجارات” میں نقل کیاہے ۔ اور ان دونوں کے متعلقہ ابواب “باب رعی الغنم علی قراریط” اور “باب الصنایات” بھی اس کی مزید تائید کرتے ہیں کہ آپ یہ خدمت اجرت پر انجام دیا کرتے تھے۔ بہرحال یہ محنت کا معاملہ تھا اور آپ نے اسی سے اپنی معاشی زندگی کا آغاز کیا۔
3) تجارت نبوی:
آپ نے نوجوانانِ قریش کی مانند تجارت کا مشغلہ اپنایا۔ اپنے بچپن میں آپ نے اپنے چچا زبیر بن عبدالمطلب اور ابو طالب کےساتھ کم از کم یمن و شام کے دو سفر کیے تھے اور ابن سعد وغیرہ کی بعض روایات سے آپ کے اپنے چچا ابوطالب کےساتھ یا دوسرے رفقاء کے بازاروں میں موجودگی معلوم ہوتی ہے۔ ان کے ذریعہ تجارت و کاروبار سے ابتدائی تعارف تو حاصل کرہی لیا تھا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سامانِ تجارت لے کر شام جانے تک آپ بطور تاجر اپنی حیثیت مسلم اور اپنی مہارت و محنت اور ذہانت منوا چکے تھے۔
خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال تجارت کوشام لے جانے سے قبل متعدد حضرات کےساتھ تجارتی روابط قائم کرکے اپنی ساکھ بناچکے تھے۔ بعثت و نبوت سے قبل رسول اکرمﷺ کے جن شرکاء تجارت کا ذکر ملتا ہے ان میں حضرات سائب، قیس بن سائب مخزومی اور عبداللہ بن ابی الحماد شامل ہیں۔ وہ آپ کےمعاملہ کی صفائی ،راست گوئی ، وعدہ وفائی اور حسن معاملہ کا اعتراف کرتے تھے ؁چند روایات و شواہد ایسے ہیں جو یہ ثابت و واضح کرتے ہیں کہ شغل ِ تجارت بعثت نبوی کے بعد میں بھی جاری رکھا۔
4) تجارت و دولت خدیجہ رضی اللہ عنہا:
رسول اکرمﷺ کی معیشت مکی کے باب میں خدیجہ کی تجارت و دولت کو کافی اہمیت حاصل ہے ہمارے مؤرخین و سیرت نگاروں سے زیادہ ہمارے قدیم و جدید مفسرین نے یہ خیال و نظریہ عام کرنے میں حصہ لیا ہے کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی دولت آپ کی مالداری اور خوشحالی کی ذمہ دار تھی اور اللہ تعالیٰ نے یہ دنیاوی وسیلہ اسی لیے فراہم کیا تھا کہ آپ دنیاوی مشاغل سے بالاتر و آزاد ہوکر اللہ کے دین کو پھیلانے اور لوگوں کو صحیح راستہ دکھانے کےلیے ہمہ وقت اور ہمہ جہت مصروف ہوجائیں۔
(بہرحال اس موضوع پر تفصیل سے بات کرنے کی ضرورت ہے: فیض)
یہ معلوم ہوچکا ہے کہ رسول کریم ﷺ کو والدین کی وراثت میں اچھا خاصہ سامان اور غیر منقولہ مکان ملا تھا۔ جو خوشحالی کے لیے کافی نہ تھا۔ تاہم بقدر کفاف تھا۔ اور ضروریات کے لیے کافی تھا۔ پھر والدہ کی پرورش ،جد امجد و اعمام نبوی کی کفالت کےبعد آپ کی محنت کی کمائی اور تجارت تھی۔ اور اسی تجارت نے آپ کو بقدر کفاف سے اوپر اٹھا کر “غنا” کے درجہ تک پہنچایا تھا۔ اور بعد میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کی دولت و تجارت نے آپ کی اپنی تجارت سے مل کر آپ کو مادی فراغت نصیب کردی۔
خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تھی تو کھانے پینے کے انتظام کے علاوہ اپنے سسرالی رشتہ داروں کو حلہ/لباس پہنائے اورخدیجہ کو بیس “بکرہ” (اونٹنیاں) مہر میں دیں۔
بعد میں ہجرت مدینہ کے قریب سودہ رضی اللہ عنہا اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو ان کو فی کس چار سو پانچ سو درہم مہر دیا تھا اور ظاہر ہے کہ ولیمہ بھی کیا تھا اور ان کے کفاف کا انتظام بھی ۔
آپ کے مکی غلاموں میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور ان کی اہلیہ ام ایمن رضی اللہ عنہا مشہور ہیں۔دوسرے غلاموں میں ابوکبشہ،انسہ ، صالح شقران اور سفینہ تھے۔ ان سب کو آپ نے غالباً خریدا اور آزاد کردیا تھا مگر وہ آپ ہی کے زیرِ کفالت رہے تھے۔ غالباً ان کے علاوہ بھی کچھ مکی غلام تھے۔ اسی طرح ہجرت کے وقت آپ کو اپنے تمام جانور اور اثاثہ چھوڑنا پڑا تھا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فراہم کردہ اونٹنی قصواء خرید لی تھی جسکی قیمت چارسودرہم تھی۔ ابنِ اسحاق نے اسلام کے لیے آپ کی دو دعوتوں کے انتظام کرنے کا ذکر کیا ہے۔ ان دونوں دعوتوں پر آپ کے مال کے خرچ ہونے کا معاملہ ظاہر ہے۔
5) اصحاب کے ہدایا اور خدمات
6) رسول اللہ ﷺ کے ذاتی وسائل اور ذرائع معاش
جانوروں کا پالنا، ازواج مطہرات کا مال، اموال غنیمت، سواری کے جانور اور ذرائع، اراضی و جائیداد کی ملکیت رسول، حضور ﷺ کا لوگوں کی دعوت کرنا اور کھانا کھلانا۔
محدثین واربابِ سیر سب کا اتفاق ہے کہ رسول اکرم ﷺ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ سخی اور فیاض تھے اگر آپ ہدایا اور تحفے قبول کرتے تو خود بھی کسی سے پیچھے رہنا پسند نہ فرماتے تھے۔ (بخاری)
سنتِ نبوی تھی کہ مقامی مہمانوں ،قریب ودور کے صحابہ اور اہلِ مدینہ کے علاوہ آپؐ باہر سے آنے والے تمام وفود اور ان کے اراکین کی مہمانداری کیاکرتے تھے اور اس کے لیے بلالؓ باقاعدہ نگراں افسر مقرر کیے گئے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ وہ آپؐ کے تمام گھروں کے لیے نہ صرف سودا سلف لاتے تھے بلکہ ان کے وسائل وذرائع کا انتظام بھی کیا کرتے تھے اور اسی طرح وفود کی ضیافت نہ صرف ان کی ذمہ داری تھی بلکہ اس کے لیے سامان کی فراہمی اور اس کے وسائل کا انصرام بھی انھیں کا فریضہ تھا۔
ابتدائی دور ہجری میں رسول کریمﷺ کی معاشی و اقتصادی ضروریات کی تکمیل کا سب سے بڑا ذریعہ مدنی صحابہ کرام کا بالخصوص اور صاحبِ حیثیت مکی ومہاجر صحابہ کرامؓ کا بالعموم ایثار بھرا ہدیہ ونذرانہ تھا۔ اسی وسیلہ نے آپؐ اور آپؐ کے متعلقین اور اہل وعیال کے لیے تین بنیادی ضرورتوں روٹی،کپڑا اور مکان کی سبیل پیدا کی تھی۔ اور اسی نے دوسرے اسبابِ زیست فراہم کرکے حیات نبویؐ میں خوش گواری اور کسی قدر سہولت پیدا کی اور زندگی کو زیادہ خوش گوار بنایا۔
یہ اہم ترین ذریعہ معاش تھا مگر یہ واضح رہنا چاہیے کہ یہ محض ایک ذریعہ ہی تھا۔ ترکہ و وراثت ،ازواجِ مطہرات کے اپنے اموال ،خرید وبیع اور تجارت ،کسی حد تک زراعت وباغبانی اور مویشی پالنا، تھوڑی سی دستکاری ، مال غنیمت وغیرہ دوسرے وسائل ِ معاش تھے۔ ان سے جو سامانِ زیست فراہم ہوتاتھا وہ اتنا کافی تھا کہ آپؐ اور آپؐ کے اہل وعیال عیش وعشرت کی زندگی بسر کرتے تھے۔ اور دنیاوی نعمتیں ہی مقصود ہوتیں تو انھیں اسباب سے آپؐ دولت کےانبار اور تنعم کی فروانی پیدا کرسکتےتھے مگر آپؐ نے اس دنیاوی زندگی میں غریبانہ وشریفانہ زندگی بسرکی۔ نہ زہد وفقر کی وہ زندگی اختیار کی جو رہبانیت کی طرف لے جاتی ہے اور نہ عیش وعشرت کی جو آخرت پر دنیا کو ترجیح دیتی ہے۔

شاہ فیض الابرار

یہ بھی پڑھیں: فضیلة الشيخ محمد عزير شمس رحمه الله, ايک مثالی شخصیت