سوال

آج کل ایک ادارہ بنا ہوا ہے انکے اہلکار گلیوں، محلوں میں کیری ڈبے  لے کر گھومتے رہتے ہیں اور راہ چلتے بچوں کو اٹھا کر اپنے پاس لے جاتے ہیں، پھر انکی دیکھ بھال کرتے ہیں، انکو کھلاتے پلاتے ہیں اور انکو پینٹ شرٹ وغیرہ پہنا کر صاف ستھرا کر کے انکی تصویریں اتار کر باہر ممالک میں بھیجتے ہیں وہاں سے انکو بہت بڑی ایڈ بھی مل رہی ہے، حکومت بھی انکے ساتھ ملی ہوئی ہے اور یہ لوگ صرف مدارس کے بچوں کو اٹھاتے ہیں۔ اسکے بعد اگر ان سے بچے کی واپسی کا مطالبہ کیا جائے تو کہتے ہیں کہ ابھی یہ تین دن ہمارے پاس رہے گا اسکی فائل مکمل ہوگی۔ پھر اسکو عدالت پیش کیا جائے گا۔ اور بچے کو اختیار دیا جائے گا کہ اگر بچہ واپس جانا چاہے تو ٹھیک ہے ورنہ یہ ہمارے پاس ہماری کسٹڈی میں رہے گا!

علمائے کرام رہنمائی فرمائیں کہ کیا ان کا ایسا کرنا درست ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

یہ تو چوری اور سینہ زوری والا معاملہ ہے، بچوں کو اٹھانا بہت بڑا جرم ہے، شریعت میں اس کی بالکل اجازت نہیں ہے۔ وہ کون ہوتے ہیں؟ جو بچے کو اٹھا کر کورٹ میں پیش کریں کہ اگر بچہ کہے کہ میں اپنے مدرسے واپس جانا چاہتا ہوں تو ٹھیک وگرنہ وہ اس کو واپس نہیں دیں گے۔ یہ لوگ بچے کو اپنے پاس رکھنے کے مجاز  ہیں اور نہ ہی کورٹ میں پیش کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

لہذا وہ بچہ جن کا ہے ان کو واپس ملنا چاہیے، اللہ تعالی ان شریروں کے شر اور حاسدین کے حسد سے مدارس اور علمائے کرام کو محفوظ رکھے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ