دی نیشن کی خبر کے مطابق سعودی عرب میں ریاض میں “ریاض سیزن” 2023ء کے افتتاح کے سلسلے میں میوزیکل کنسرٹ میں پرفارم کرنے کے لیے امریکہ سے شکیرا آئی ہوئی ہے۔ شکیرا کیا آئٹم ہے، مجھے اس بارے زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ البتہ سوشل میڈیا پر یہ بحث دیکھنے کو ملی ہے کہ سعودی عرب سے انڈیا میں امپورٹڈ سلفیت کے حامی یعنی مدخلی سلفی حماس کے مجاہدین پر خوب تنقید کر رہے ہیں جبکہ اسی لمحے سعودی عرب میں ہونے والے میوزیکل کنسرٹس پر گونگے شیطان بنے ہوئے ہیں۔ حماس پر تنقید میں انہوں نے اپنے واٹس ایپ گروپس بھر دیے ہیں۔ ان میں کچھ میسجز ایسے ہیں جو مجھ تک پہنچتے رہتے ہیں، الامان والحفیظ۔ انہیں پڑھ کر ان کے مسلمان کہلانے پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔
ان مدخلیوں کی دلیل عام طور پر یہ ہوتی تھی کہ ہم سعودی عرب پر تنقید اس لیے نہیں کرتے کہ حکمرانوں پر تنقید کرنا شرعا حرام ہے۔ لہذا ہمارا مدخلی منہج ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم سعودی حکمرانوں کے منکرات پر خاموش رہیں۔ لیکن دوسری طرف یہی مدخلی ترکی کے حکمرانوں، ایران کے حکمرانوں اور پوری دنیا کے حکمرانوں پر تنقید کرتے نظر آئیں گے۔ حماس کو ہی دیکھ لیں۔ 2006ء کے انتخابات کے نتیجے میں غزہ میں اس نے حکومت قائم کی تھی۔ اس کے بعد سے غزۃ کی حکومت اسی کے پاس ہی ہے۔ اب حماس پر تنقید در اصل مسلمان حکمران پر تنقید ہے جو ان کے اپنے بتلائے ہوئے منہج کے مطابق حرام کام ہے۔
یہ مدخلی، حماس کے اتنے خلاف کیوں ہیں، یہ سوچنے کی بات ہے۔ اس کی وجہ سعودی عرب کی خارجہ پالیسی ہے۔ ان پر اصل میں اس فارن پالیسی کی حمایت اور نصرت کا بوجھ لادا گیا ہے جو کسی گدھے کی بوجھ کی طرح بغیر سوچے سمجھے انہوں نے اٹھایا ہوا ہے اور دوسروں کو بھی اٹھانے کی دعوت دے رہے ہیں اور اس کا نام سلفی منہج رکھ چھوڑا ہے۔ آج یہ حماس کو ایران نواز کہہ کر کوستے ہیں۔ کل کو یہی سعودی حکمران، ایران نواز تھے کیونکہ اسرائیل کو خطے میں تنہا کرنا چاہتے تھے۔ اور ان سعودی حکمرانوں پر کوئی تنقید نہیں ہو رہی ہے۔ یعنی حکمران بھلے اسرائیل سے سمجھوتہ کرے یا ایران سے گلے لگے یا امریکہ کی گود میں بیٹھے، اس پر تنقید نہیں ہو گی۔ تو یہ صرف سعودی حکمران کے لیے کیوں خاص ہے۔ غزۃ کے حکمرانوں یعنی حماس کو اس کی اجازت کیوں نہیں ہے۔ کیا صحیفوں میں سعودی حکمرانوں کا نام نازل ہوا ہے کہ یہ منہجی حکم صرف انہی کے لیے ہی ہے؟
سعودی عرب کو ایک طرف اسرائیل سے خطرہ ہے کہ گریٹر اسرائیل کے نقشے میں حجاز کا بالائی علاقہ بھی شامل ہے کہ جس کی طرف اسرائیل آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے۔ اور دوسری طرف ایران سے خطرہ ہے کہ عراق، شام اور یمن میں بھی شیعہ حکومت قائم ہو چکیں۔ بحرین میں ویسے ہی شیعہ اکثریت ہے اور لبنان میں بھی شیعہ کافی تعداد میں ہیں۔ تو کل کلاں شیعہ ریاستوں کا یہ اتحاد سعودی عرب کے حکمرانوں کی حکومت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
سعودی عرب کی فارن پالیسی اونٹ کی کروٹ کی مانند کبھی ادھر اور کبھی ادھر ہوتی رہتی ہے۔ کبھی وہ ایران کے قریب ہونا شروع کر دیتا ہے تا کہ اسرائیل کو خطے میں تنہا کر سکے۔ اور پچھلی مرتبہ یہ کام چین کی ڈپلومیسی پر شروع ہوا تھا۔ اور کبھی وہ ایران کا خطے میں بڑھتا اثر ورسوخ دیکھ کر اسرائیل کی طرف جھک جاتا ہے تا کہ ایران کو اس خطے میں تنہا کر سکے۔
فی الحال پچھلے سال امریکہ بہادر نے یہ کام کیا ہے کہ ایران کا خوف دلا کر سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات بحال کروانے کی کوشش کی ہے۔ ذیل کی تصویر میں بائیڈن یہی کام کرتے نظر آ رہے ہیں۔ امریکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ سعودی عرب، ایران کے خلاف اسرائیلی حملوں کے لیے اپنے ایئر بیسز فراہم کرے۔ اور وہی کردار ادا کرے جو پاکستان نے افغانستان کی جنگ میں امریکہ کو ایئر بیسز فراہم کر کے ادا کیا تھا۔ امریکہ اصل میں آپس میں لڑوا کر مروانا چاہتا ہے۔
سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کو بھی تیسرا ڈر اور خوف اپنے اندر کی اسلامی تحریکوں سے ہے جو عرب ریاستوں کی فارن پالیسز پر تنقید کرتی رہتی ہیں کہ انہوں نے ہمشیہ امریکہ کی حمایت کی ہے، اس کی گود میں بیٹھے ہیں، اور اسرائیل فلسطین مسئلے میں کوئی ایکٹو کردار ادا نہیں کیا، اور منکرات کو فروغ دیا، اور اسلامی اصولوں کے مطابق حکومت کرنے میں کوتاہی کی۔
سعودی عرب میں بھی شروع میں اخوانیوں کو امریکہ کے خلاف استعمال کیا گیا جب تک کہ امریکہ کا خوف غالب تھا اور مسلم ریاستوں کے حکمرانوں کا کچھ اتحاد قائم تھا۔ پھر جب امریکی سے دوستی ہو گئی تو اخوانی دشمن بن گئے۔ اب سعودی حکمرانوں میں ایران، اسرائیل اور اخوانی تین فوبیے ہیں۔ ایران اور اسرائیل سے تو وہ ریاستی سطح پر سفارتی تعقات بحال کر لیتے ہیں لہذا وہ فوبیا تھوڑی دیر کے لیے ختم ہو جاتا ہے لیکن اخوانی فوبیا چوبیس گھنٹے سر پر سوار رہتا ہے کہ یہ کہیں ہماری حکومت کا تختہ نہ الٹ دیں۔ یہ اخوانی فوبیا، سلفی منہج کے نام پر مدخلیوں میں بھی انجیکٹ کیا گیا ہے۔ لہذا انہیں حماس اور اخوانی منکرات کے علاوہ دنیا میں کوئی منکر نظر ہی نہیں آتا اور نہ ہی وہ اس پر بولتے ہیں، بھلے وہ ہندوتوا کا منکر ہو، یا صیہونی کا، یا صلیبی کا ہے، یا نام نہاد مدخلیوں کا۔
حماس نے تو مصر کے اطمینان کے لیے یہ بھی یہ اعلان کر دیا تھا کہ ہمارا مصری تنظیم الاخوان سے کوئی تعلق نہیں، ہم صرف فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں لیکن ان کا خوف ہے کہ ختم ہوتا ہی نہیں ہے۔ مصر نے بھی انہیں دہشت گرد ڈکلیئر کر رکھا ہے، صرف اس خوف سے کہ یہ نظریاتی لوگ ہیں۔ اگر غالب آ گئے تو اس کے بعد ہماری باری لگا دیں گے۔ ویسے نظریاتی لوگوں کا کچھ پتہ نہیں ہوتا لیکن بہر حال اتنا خوف پال لینا بھی اچھا نہیں ہے۔ اللہ عزوجل اخوانی فوبیے سے بچائے کہ وہ انہیں نیند میں ڈراتے نظر آتے ہیں کہ ہم آ رہے ہیں حالانکہ فی الحال بیچارے اسرائیل کے خلاف شہادتیں دے رہے ہیں۔
حکمرانوں نے اپنی حکومتیں بچانے کے لیے یہ سارا کھیل کھیل رکھا ہے۔ اس کھیل میں اسرائیل، ایران، سعودی عرب اور مصر سب ہی انوالو ہیں۔ سب نے اپنی حکمرانی کی بقا کے لیے مذہب کی آڑ لے رکھی ہیں۔ ایران نے رافضی پیدا کیے، سعودیوں نے مدخلی، مصریوں نے ازہری اور اسرائیلیوں نے صیہونی اور ترکیوں نے مولویہ صوفی۔ اور صرف اور صرف خطے میں اپنی بالا دستی کے لیے۔ البتہ رافضیوں نے اہلبیت کا نام استعمال کیا۔ مدخلیوں نے سلف صالحین کے کندھے پر بندوق رکھی۔ ازہریوں نے قرآن کا سہارا لیا اور ترکیوں نے تصوف کا۔ اور اسرائیلیوں نے صلیبیوں کا کندھا استعمال کیا۔ فلسطین اور بیت القدس کی آزادی کے لیے سب صرف بڑھکیں مار رہے ہیں۔ اور اپنے فالوورز کو مطمئن کیا ہوا ہے کہ ہم کچھ کر رہے ہیں۔ اللہ عزوجل رحم فرمائے۔ حقیقت کو سمجھنے والے بہت کم ہیں۔
ڈاکٹر حافظ محمد زیبر