سوال
Date: 2024/08/10
محترم مفتی صاحب عرض ہے کہ میرا بہنوئی جاوید جو کہ سال 2009 کو ائیر پورٹ جا رہا تھا کہ پشاور میں ایک ہوٹل سے نامعلوم افراد نے اپنے دو ساتھیوں سمیت غائب کیا. 2009 سے لے کر اب تک جاوید کے والد اور خاندان کے افراد نے ریاست کا ہر دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کہیں سے بھی انصاف نہیں ملا. اغوا کے بعد اب تک تقریباً 15 سال میں ایک دفعہ بھی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی اس کی زندہ یا وفات کا کسی کو خبر کو خبر ہے. میری بہن اس کے اغوا کے بعد ابھی تک اس کے نکاح میں ہے. ہمیں ہر طرف سے ہر محاذ پر مایوسی ہو چکی ہے لیکن ابھی تک ان کے زندہ یا فوتگی کے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں. تو ایسی حالت میں اسلام کیا درس دیتا ہے، ہمیں کیا کرنا چاہیے اس حوالے سے اسلام کے کیا احکامات ہیں؟
العارض جمالیہ زوجہ مغوی جاوید.
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
موجودہ صورت حال میں چونکہ آدمی بالکل ہی غائب ہے، اسکو گم ہوئے پندرہ سال ہوگئے ہیں، وہ یقینا مفقود الخبر کے حکم میں ہے۔ اور مفقود الخبر کے لیے مختلف فقہاء نے مختلف مدت بتائی ہے، بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ مدت مختلف علاقوں کے اعتبار سے مختلف ( کم یا زیادہ) ہوسکتی ہے۔ یعنی عدالت اور قاضی حالات و واقعات کو دیکھ کر جتنی مدت مناسب سمجھے مقرر کرسکتا ہے، البتہ یہ خیال رہنا چاہیے کہ یہ مدت ایک سال سے کم نہ ہو اور چار سال سے زیادہ نہ ہو۔
عورت اپنے خاوند کی گمشدگی کا مقدمہ عدالت میں دائر کروائے اور پھر عدالت کے تمام ذرائع کا استعمال اور تحقیق کرنے کے باوجود بھی اگر اسکی کوئی خبر نہ ملے تو عورت چار سال اپنے خاوند کا انتظار کرے، اس کے بعد بھی اگر خاوند کی کوئی خبر نہیں ملتی تو اس صورت حال میں اس عورت کا حق ہے کہ وہ اس سے جدا ہوجائے، وہ عورت دو طریقوں میں سے کوئی بھی طریقہ اپنا کر الگ ہوسکتی ہے:
1: وہ عدالت میں فسخ نکاح کا مطالبہ کر کے اس شوہر سے فارغ ہوجائے اور ایک حیض عدت گزار کر آگے جہاں چاہے نکاح کرلے۔
2: یا وہ عدالت سے مفقود الخبر میت کی ڈگری لے اور چار مہینے دس دن عدت گزار کر اس سے فارغ ہوجائے۔
حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایک خاتون کا شوہر لاپتہ ہوگیا تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی، آپ نے اسے چار سال انتظار کا حکم دیا، چار سال بعد وہ دوبارہ آئی، آپ نے فرمایا: چار ماہ دس دن مزید انتظار کرو، اور اس کے بعد فرمایا:
“أين وليُّ هذا الرجل؟ فجاؤوا به، فقال: طلِّقها، ففعل، فقال عمر: تزوجي من شئت”.
’اس شخص کا ولی کدھر ہے؟ ولی کو لایا گیا، اس سے خاتون کو طلاق دلوائی اور کہا کہ اب آپ جس سے چاہیں آگے نکاح کر سکتی ہیں‘۔
[مصنف عبد الرزاق 7/ 47، «بَابُ الَّتِي لَا تَعْلَمُ مَهْلِكَ زَوْجِهَا» وصححه غير واحد. انظر الإرواء للألباني: 6/ 150 برقم:1709]
عدالت میں کیس دائر کیے بغیر خود بخود گھر بیٹھے ہی کچھ مدت گزرنے کے بعد فیصلہ کر لینا یہ درست نہیں ہوگا۔
مفقود الخبر خاوند کی بیوی کے لیے صرف 4 سال كا انتظار ہی كافى تھا، اب تو پندرہ سال ہو گئے ہیں۔ لہذا یہ عورت مذکورہ دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی صورت اختیار کرکے اس سے الگ ہوسکتی ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ