سوال (2253)

میں نے کچھ ضرورت مندوں کا ماہانہ خرچہ لگایا ہوا جو تقریباً 35 سے 40 ہزار بنتا ہے۔ اب یہاں میرے ساتھ۔ دو مسائل ہیں
1: میری ماہانہ آمدنی میں 18000 کی کمی 2: میرے بڑھتے ہوئے اخراجات اور تیسرا مسئلہ بچوں کے مستقبل کے لیے کچھ جگہ وغیرہ بنانے کی وجہ سے اگر یہ جو ماہانہ لگایا ہوا ہے اسے روک لوں تو دینی اعتبار سے میرے اوپر کوئی جرم لاگو تو نہیں آتا؟

جواب

یہ نفلی صدقہ ہے، حسب استطاعت خرچ کریں۔
اور جو مقدار روکنا چاہیں روک لیں۔ کچھ نہ کچھ خرچ کرتے رہیں۔ برکت ہوگی بچوں کا حق پہلے ہے، ان کے لیے رہائش اور کچھ جائداد بھی بنانی چاہیے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

أحسنتم وبارك فيكم

اپنے اہل خانہ پر خرچ کرنا کہ وہ آپ کے زیر کفالت ہیں، واجب ہے، تو اگر فیملی کے نان ونفقہ میں حرج اور کمی واقع ہو رہی ہے تو حالات پہلے جیسے یا پہلے سے مزید بہتر ہونے تک وہ رقم آپ روک سکتے ہیں البتہ ان ضروت مندوں میں سے جو سب سے زیادہ ضرورت مند ہے اس پر اپنی فیملی کے ساتھ مشورہ کر کے ضرور تعاون جاری رکھیں کیونکہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دینا بھی باعث فضیلت ہے۔
رب العالمین نے اہل خیر کی صفت اپنی کلام پاک میں کچھ یوں بیان فرمائی:

وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ[سورۃ الحشر: 9]

اور اپنے آپ پر ( ضرورت مندوں کو)ترجیح دیتے ہیں، خواہ انھیں سخت حاجت ہو اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔
اس کے علاوہ بھی انصار صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کی اس متعلق قربانیاں اور فراخی دلی کی مثالیں کتاب وسنت میں موجود ہیں۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان کے مال میں سب سے پہلا حق اس کے خود کا ہے، اس کے بعد بیٹے کا پھر بیوی کا اور پھر غلام کا اور پھر دیگر مستحقین پر خرچ کرنا چاہیے۔
جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

لأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عِنْدِي دِينَارٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ تَصَدَّقْ *بِهِ عَلَى نَفْسِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عِنْدِي آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى وَلَدِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عِنْدِي آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى زَوْجَتِكَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ زَوْجِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عِنْدِي آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى خَادِمِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عِنْدِي آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْتَ أَبْصَرُ.

نبی اکرم ﷺ نے صدقہ کا حکم دیا تو ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس ایک دینار ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنے کام میں لے آؤ، تو اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنے بیٹے کو دے دو ، *اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنی بیوی کو دے دو، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنے خادم کو دے دو ، اس نے کہا میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اب تم زیادہ بہتر جانتے ہو (کہ کسے دیا جائے)۔
سوال میں مذکورہ صورت میں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جن مستحقین پر آپ ماہانہ خرچ کر رہے ہیں، کیا آپ کے خرچ نہ کرنے سے وہ بنیادی ضروریات زندگی سے ہی محروم تو نہیں ہوجائیں گے، اگر ایسا ہے تو اس صورت میں آپ کو چاہیے کہ خود بھی ان پر حسب وسعت تو خرچ کرتے رہیں اور ساتھ میں اپنے ایک دو صاحب حیثیت ساتھیوں کو بھی ترغیب دیں کہ وہ بھی ان کی معاونت میں حصہ شامل کردیا کریں، تاکہ اللہ نے آپکو کسی کے لیے باعث امید بنایا ہے تو اب اس غریب کے لیے کوئی پریشانی تنگی کا باعث نہ بن جائے۔ اس دور میں مستحقین کا خاص خیال رکھنا چاہیے بے شک اللہ آپکے معاملات کو خوب بہتر بنا دے گا۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ

بارك الله فيكم وعافاكم
اس روایت کی بظاہر سند حسن لذاتہ ہے صحیح نہیں ہے لابن ابن عجلان عن سعید المقبری روایت پر جو کلام ہے، محدثین کا اسے بھی تفصیل سے دیکھیں پھر نتیجہ حاصل کریں کہ یہ طریق کب قبول ورد ہے۔
ابن عجلان نے مسند أحمد وغیرہ میں سماع کی صراحت کر رکھی ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ