سوال (5520)
کرایہ دار کو مکان کرائے پر چاہیے لیکن درمیان میں ایجنٹ وغیرہ مکان مالک سے کمیشن لیتے ہیں۔ کیا یہ طریقہ درست ہے؟ اور ایجنٹی کرنے کا پیسہ حلال ہوگا؟ بینک کے ذریعہ کار وغیرہ قسطوں پر لینا کیسا ہے؟
جواب
مارکیٹ کا عرف ہے، وہ اپنی محنت کا بدلہ لیتا ہے البتہ اس میں جھوٹ اور دھوکہ دہی زیادہ کرتے ہیں، باقی بینک کا سب کچھ سودی ہے۔
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
سائل: مطلب دونوں کام ہی غلط ہیں؟
جواب: کمیشن معروف ہوتا ہے مارکیٹ کا مزاج ہے اس لیے جائز ہے۔ باقی غلط بیانی کے بغیر بازار چلتا نہیں ہے۔ دوسرا غلط نہیں بلکہ حرام ہے کیونکہ سود ہے۔
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
جواب نمبر 1:معروف ہو یعنی جس سے لے رہے ہیں اسکو معلوم ہو تو جائز ہے کیونکہ گاہک ڈھونڈنا محنت ہے۔ اور محنت کی فیس اجرت میں آتی ہے جائز ہے بتائے بغیر میں دھوکے کا پہلو ہوتا ہے۔
جواب نمبر 2: پہلی بات قسطوں پہ چیز لینے کے جائز ہونے میں اختلاف ہے۔
اب جن کے ہاں قسطوں پہ چیز لینا جائز ہے انکے ہاں بینک سے بھی پھر قسطوں پہ کار لی جا سکتی ہے اگر صرف ایک قیمت رکھی جائے جہاں تک بینک کے دوسرے سودی معاملات کا تعلق ہے تو وہ اپنی جگہ ناجائز ہو گا مگر اسکا قسطوں والا کام جن کے ہاں جائز ہے وہ کر سکتے ہیں جیسے کسی دکان والے نے دینی کتابیں بھی رکھی ہیں اور ساتھ شرکیہ کتابیں بھی رکھی ہیں تو آپ مجبوری میں دوسری کوئی جگہ نہ ہونے ہی اس کتاب والے سے بھی توحید کی کتاب خرید سکتے ہیں۔
البتہ جن کے ہاں قسطوں کا کام نا جائز ہے انکے ہاں ظاہر ہے یہ بھی ناجائز ہی ہو گا۔ واللہ اعلم
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
پہلا سوال یہ ہے کہ کرایہ دار کو مکان کرائے پر چاہیے، اور درمیان میں ایجنٹ مالک مکان سے کمیشن لیتا ہے، کیا یہ طریقہ درست ہے؟ جواب ہے کہ بالکل درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ ایجنٹ اپنی خدمات کے بدلے کمیشن لیتا ہے، جو کہ جائز ہے۔ کیونکہ اگر کوئی خود مکان تلاش کرے تو مشکل ہوتی ہے، لیکن ایجنٹ ایک دن میں مکان مہیا کر دیتا ہے، اس لیے وہ اپنی محنت کا حق لیتا ہے۔ البتہ بینک کے ذریعے جو سسٹم چلتا ہے، وہ سودی ہے اور اس میں احتیاط ضروری ہے۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ