سوال (5448)

جو مکان بنانے کے لیے حکومت کی طرف سے قرضہ ملتا ہے، وہ لینا جائز ہے، اس میں قرضہ لینے والے نے اتنی رقم واپس کرنی ہے، اوپر ایک روپے بھی نہیں دینا، جتنی اس نے قرض کے لیے لی ہے؟

جواب

یہ بات صحیح ہے کہ جتنا قرضہ حکومت سے لیا جا رہا ہے، لینے والا اتنا ہی واپس کرے گا، کیا اس طرح کوئی پالیسی ہے کہ آپ سود ادا نہ کریں، میں سود ادا کروں گا، یہ بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ آپ سود کے اندر شامل ہو رہے ہیں، سود میں شریک ہونے والا گناہ میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

چند ماہ پہلے مفتی جماعت محترم الشیخ عبدالستار حماد صاحب نے بتایا تھا کہ حکومت جو قرضہ دے رہی ہے اس کی اصل رقم تو قرضہ لینے والے کے ذمہ ہے جبکہ متعلقہ اداروں یا بینکوں کو سود کی ادائیگی حکومت خود کرے گی۔ اس تناظر میں یہ معاملہ ایسا ہی ہے کہ کوئی آپ سے کہے سود پر قرض لے لو سود میں دے دوں گا لہذا سود لینے والا ادا کرے یا کوئی اور دونوں صورتوں میں حرام ہے۔

فضیلۃ الباحث طارق رشید وہاڑی حفظہ اللہ

سائل: شیخ لیکن حکومت نے تو واضح اعلان کیا ہے کہ ہم سود نہیں لیں گے؟
جواب: پیارے بھائی حکومت نے اگر آپ کے ساتھ معاہدہ میں سود کو بالکل شامل نہیں کیا بلکہ کہا ہے کہ ہم سود کے بغیر ہی قرضے دے رہے ہیں ہاں علیحدہ اپنے طور پہ وہ بینک وغیرہ سے پیسے سود پہ لے رہی ہے یا آئی ایم ایف سے پیسے سود پہ لے رہی ہے تو وہ اسکا معاملہ ہے ہمارے لئے ناجائز نہیں ہو گا جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ دیکھیں حکومت سود پہ آئی ایم ایف سے لیتی ہے اور وہی تم کو تنخواہ دیتی ہے تو تم کیوں لیتے ہو تو ہم کہتے ہیں کہ ہمارے معاہدے میں وہ ائی ایم ایف والا معاہدہ نہیں ہے وہ حکومت نے علیحدہ کیا ہوا ہے ہمارا اس سے تعلق نہیں ہے
لیکن مذکورہ قرضہ والی سکیم ایسی شاید نہیں ہے اس میں آپ کے ساتھ معاہدہ میں یہ لکھا ہے کہ حکومت آپ کو بینک وغیرہ سے سود پہ قرضے دلائے گی اور اسکا سود حکومت ادا کرے گی تو مطلب یہ ہوا کہ آپ سود والا ہی قرضہ لے رہے ہیں چاہے وہ سود کوئی بھی ادا کر رہا ہے پس اگر ایسا ہی ہے تو یہ حرام ہو گا۔

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ