سوال (6395)

حَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَا حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي إِسْمَعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ خَالِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِي فَقَالَ خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ التُّرْبَةَ يَوْمَ السَّبْتِ وَخَلَقَ فِيهَا الْجِبَالَ يَوْمَ الْأَحَدِ وَخَلَقَ الشَّجَرَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَخَلَقَ الْمَكْرُوهَ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ وَخَلَقَ النُّورَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ وَبَثَّ فِيهَا الدَّوَابَّ يَوْمَ الْخَمِيسِ وَخَلَقَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام بَعْدَ الْعَصْرِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فِي آخِرِ الْخَلْقِ فِي آخِرِ سَاعَةٍ مِنْ سَاعَاتِ الْجُمُعَةِ فِيمَا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى اللَّيْلِ قَالَ إِبْرَاهِيمُ حَدَّثَنَا الْبِسْطَامِيُّ وَهُوَ الْحُسَيْنُ بْنُ عِيسَى وَسَهْلُ بْنُ عَمَّارٍ وَإِبْرَاهِيمُ ابْنُ بِنْتِ حَفْصٍ وَغَيْرُهُمْ عَنْ حَجَّاجٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ،

سریج بن یونس اور ہارون بن عبداللہ نے مجھے حدیث بیان کی، دونوں نے کہا: ہمیں حجاج بن محمد نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ابن جریج نے کہا: مجھے اسماعیل بن امیہ نے ایوب بن خالد سے حدیث بیان کی۔ انھوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام عبداللہ بن رافع سے اور انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:’’ اللہ عزوجل نے مٹی (زمین) کو ہفتے کے دن پیدا کیا اور اس میں پہاڑوں کو اتوار کے دن پیدا کیا اور درختوں کو پیر کے دن پیدا کیا اور ناپسندیدہ چیزوں کو منگل کے دن پیدا کیا اور نور کو بدھ کے دن پیدا کیا اور اس میں چوپایوں کو جمعرات کے دن پھیلا دیا اور سب مخلوقات کے آخر میں آدم علیہ السلام کو جمعہ کے دن عصر کے بعد سے لے کر رات تک کے درمیان جمعہ (کے دن) کی آخری ساعتوں میں سے کسی ساعت میں پیدا فرمایا۔‘‘ [صحیح مسلم: 7054]
جلودی نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں امام مسلم رحمہ اللہ کے شاگرد ابراہیم نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں حسین بن علی بسطامی، سہل بن عمار، حفص کے نواسے ابراہیم اور دوسروں نے حجاج سے یہی حدیث بیان کی۔ اس صحیح مسلم کی حدیث پر یہ اعتراض ہے کہ یہ قرآن کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس میں مخلوق کی پیدائش کے سات دن بن رہے ہیں جبکہ قرآن میں چھ دن کہا گیا ہے۔
تو اس حوالے سے کسی شیخ محترم کو کوئی معلومات ہوں تو شیئر کردیں۔ جزاکم اللہ خیرا کثیرا

جواب

لا تعارض بين خلق السموات والأرض في ستة أيام وحديث التربة https://share.google/7cucqm1WwEFXqZdBk

ہر ایک کا ایک جیسا علم نہیں ہوتا ہے، تعارض نہیں ہے، بعض لوگوں کو تعارض دیکھنے میں آتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں بھی بظاہر دیکھنے میں آتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“فَيَوۡمَئِذٍ لَّا يُسۡـٴَـلُ عَنۡ ذَنۡۢبِهۤ اِنۡسٌ وَّلَا جَآنٌّ‌ۚ” [الرحمن: 39]

«پھر اس دن نہ کسی انسان سے اس کے گناہ کے متعلق پوچھا جائے گا اور نہ کسی جنّ سے»
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“فَوَرَبِّكَ لَـنَسۡـئَلَـنَّهُمۡ اَجۡمَعِيۡنَۙ” [الحجر: 92]

«سو تیرے رب کی قسم ہے! یقینا ہم ان سب سے ضرور سوال کریں گے»
یہاں دونوں جگہ تعارض دیکھنے میں آ رہا ہے۔
اس طرح یہ مقام بھی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡهِيۡهِمۡ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيۡعٌ عَنۡ ذِكۡرِ اللّٰهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِيۡتَآءِ الزَّكٰوةِ‌ۖ ۙ يَخَافُوۡنَ يَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِيۡهِ الۡقُلُوۡبُ وَالۡاَبۡصَارُ” [النور: 37]

«وہ بڑی شان والے مرد جنھیں اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے سے نہ کوئی تجارت غافل کرتی ہے اور نہ کوئی خرید و فروخت، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی»
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

“وَاِذَا رَاَوۡا تِجَارَةً اَوۡ لَهۡوَا۟ اۨنْفَضُّوۡۤا اِلَيۡهَا وَتَرَكُوۡكَ قَآئِمًا‌ ؕ قُلۡ مَا عِنۡدَ اللّٰهِ خَيۡرٌ مِّنَ اللَّهۡوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ‌ ؕ وَاللّٰهُ خَيۡرُ الرّٰزِقِيۡنَ” [الجمعة: 11]

«اور جب وہ کوئی تجارت یا تماشا دیکھتے ہیں تو اٹھ کر اس طرف چلے جاتے ہیں اور تجھے کھڑا چھوڑ جاتے ہیں، کہہ دے جو اللہ کے پاس ہے وہ تماشے سے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے»
کیا اس کو قرآن کا ٹکراؤ قرار دیں، لیکن ان کے درمیان تطبیق ہوتی ہے، اس طرح احادیث میں بھی تطبیق ہوتی ہے، قرآن کا حدیث سے اور حدیث کا قرآن سے جوڑ ہے، یہ اہل علم کا کام ہے، بظاہر ایسے ہی لگ رہا ہے، میں نے لنک بھیجی ہے، اس میں دیکھ لیں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ