امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں: دس ہزار درہم چھوڑ کر مر جانا اور اللہ کے یہاں جا کر ان کا حساب دینا، مھے لوگوں کا محتاج بن کر جینے سے زیادہ عزیز ہے۔
پچھلے وقت میں مال کو نا پسند کیا جاتا تھا، لیکن آج کے زمانے میں مال مومن کی ڈھال ہے۔
سفیان ثوری رحمہ اللہ سے ایک شخص حج کے بارے میں مشورہ لینے آیا تو آپ نے فرمایا: حج کے سفر میں اپنے اوپر نوازش کرنے والے شخص کے ساتھ مت رہنا؛ اگر خرچے میں تم اس کی برابری کرو گے تو وہ (حسد میں آ کر) تمھیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا اور اگر وہ تم پر احسان کرے گا تو تم اس کی نظر میں بونے ہو جاؤ گے۔
ایک شخص نے امام ثوری رح کے ہاتھوں میں دینار دیکھے تو تعجب سے کہنے لگا: شیخ، آپ اور یہ دینار! تو آپ نے جواب دیا: خاموش رہو۔ اگر یہ دینار نہ ہوتے تو بادشاہ ہمیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے۔
فرمایا: مال ایک بیماری ہے اور عالِم ڈاکٹر ہے۔ اگر ڈاکٹر ہی بیمار ہو جائے گا تو لوگوں کا علاج کب کرے گا؟
جو آدمی بھی کسی دوسرے کے پیالے میں ہاتھ رکھے گا تو اس کے آگے ذلیل ہو جائے گا۔

قال سفيان: لأن أخلف عشرة آلاف درهم يحاسبني الله عليها، أحب إلي من أن أحتاج إلى الناس.
وقال رواد بن الجراح: سمعت الثوري يقول: كان المال فيما مضى يكره، فأما اليوم، فهو ترس المؤمن.
وقال عبد الله بن محمد الباهلي: جاء رجل إلى الثوري يشاوره في الحج.
قال: لا تصحب من يكرم عليك، فإن ساويته في النفقة أضر بك، وإن تفضل عليك استذلك.
ونظر إليه رجل وفي يده دنانير، فقال: يا أبا عبد الله! تمسك هذه الدنانير؟!
قال: اسكت، فلولاها لتمندل بنا الملوك.
المال داء هذه الأمة، والعالم طبيب هذه الأمة، فإذا جر العالم الداء إلى نفسه، فمتى يبرئ الناس.
ما وضع رجل يده في قصعة رجل، إلا ذل له.
سیر اعلام النبلاء

 شیخ عطاء الرحمن رامپوری