سوال (2589)
اداروں میں ایک اصطلاح “Whistle blower” استعمال ہوتی ہے ، جس میں کوئی بھی ملازم ادارے کی انتظامیہ کو ادارے میں غلط کاریوں سے آ گاہ کرتا ہے، جس میں بسا اوقات دوسرے ملازمین کے خلاف شکایات مثلاً عادی تاخیر سے آنا موبائل کا بکثرت استعمال وغیرہ سے انتطامیہ کو آ گاہ کیا جاتا ہے، کیا یہ عمل ایک ملازم کا دوسرے کے خلاف غیبت کے زمرے میں آئے گا؟
جواب
غیبت کبیرہ گناہ ہے، لیکن یہ چھ مقام پہ جاری ہے، ان میں سے بعض جگہوں پر تو ثواب بن جاتی ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی کو متنبہ کرنا بھی ہے۔
سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:
“أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصٍ طَلَّقَهَا الْبَتَّةَ، وَهُوَ غَائِبٌ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا وَكِيلُهُ بِشَعِيرٍ، فَسَخِطَتْهُ، فَقَالَ: وَاللهِ مَا لَكِ عَلَيْنَا مِنْ شَيْءٍ، فَجَاءَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: «لَيْسَ لَكِ عَلَيْهِ نَفَقَةٌ»، فَأَمَرَهَا أَنْ تَعْتَدَّ فِي بَيْتِ أُمِّ شَرِيكٍ، ثُمَّ قَالَ: «تِلْكِ امْرَأَةٌ يَغْشَاهَا أَصْحَابِي، اعْتَدِّي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَإِنَّهُ رَجُلٌ أَعْمَى تَضَعِينَ ثِيَابَكِ، فَإِذَا حَلَلْتِ فَآذِنِينِي»، قَالَتْ: فَلَمَّا حَلَلْتُ ذَكَرْتُ لَهُ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ، وَأَبَا جَهْمٍ خَطَبَانِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَّا أَبُو جَهْمٍ، فَلَا يَضَعُ عَصَاهُ عَنْ عَاتِقِهِ، وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَصُعْلُوكٌ لَا مَالَ لَهُ، انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ» فَكَرِهْتُهُ، ثُمَّ قَالَ: انْكِحِي أُسَامَة فَنَكَحْتُهُ، فَجَعَلَ اللهُ فِيهِ خَيْرًا، وَاغْتَبَطْتُ بِهِ” [صحيح مسلم: 1480]
’’ابو عمرو بن حفص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں طلاق بتہ دے دی، اور وہ خود غیر حاضر تھے، ان کے وکیل نے ان کی طرف سے کچھ جَو وغیرہ بھیجے، تو وہ اس پر ناراض ہوئیں، اس نے کہا: اللہ کی قسم! تمہارا ہم پر کوئی حق نہیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اب تمہارا خرچ اس کے ذمے نہیں۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ ام شریک رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں عدت گزاریں، پھر فرمایا: ’’اس عورت کے پاس میرے صحابہ آتے جاتے ہیں، تم ابن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں عدت گزار لو، وہ نابینا آدمی ہیں، تم اپنے اوڑھنے کے کپڑے بھی اتار سکتی ہو۔ تم جب عدت کی بندش سے آزاد ہو جاؤ تو مجھے بتانا۔’’ جب میں عدت سے فارغ ہوئی، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ معاویہ بن ابی سفیان اور ابوجہم رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابوجہم تو اپنے کندھے سے لاٹھی نہیں اتارتا، اور رہا معاویہ تو وہ انتہائی فقیر ہے، اس کے پاس کوئی مال نہیں، تم اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کر لو۔‘‘ میں نے اسے ناپسند کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ’’اسامہ سے نکاح کر لو۔‘‘ تو میں نے ان سے نکاح کر لیا، اللہ نے اس میں خیر ڈال دی اور اس کی وجہ سے مجھ پر رشک کیا جانے لگا‘‘۔
فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ
ماشااللہ شیخ نے اوپر شرعی وضاحت بالکل کلیئر کر دی ہے، پریکٹیکل ایک بات میں بھی بتانا چاہوں گا کیونکہ میرا یہ فیلڈ ہے، کبھی شیطان غلط اعمال کو مزین کر کے اسکو whistleblower کا نام دے دیتا ہے، بس اس سے بچنا ہے، یعنی جو بعض دفعہ کسی کو انتظامیہ کی نظروں سے گرانے کے لیے غلط چغلیاں یا بات کو بڑھا کر پیش کیا جاتا ہے وہ غلط ہی ہوں گے ، ہاں جس معلومات سے واقعی کوئی انتظامیہ یا عوام کا فایدہ ہو اور وہ معلومات صرف متعلقہ authorized کو دی جائے تو درست ہوگی۔
فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ