سوال (5496)
ایک کرائے کی دکان کے ساتھ ایک اور دکان جو بطور سٹور دکاندار میں کرائے پر لی ہوئی تھی۔ مالکان نے کرایہ بڑھانے کا مطالبہ کیا تو دکاندار نے نہیں بڑھایا پھر انہوں نے سٹور خالی کرنے کا کہا تب بھی اس میں نہیں کیا جب وقت گزر گیا اچانک اس نے اپنی دکان کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنا شروع کر دیا ان لوگوں نے اس سے کہا کہ یہ تو کوئی وقت نہیں ہے اب تو کوئی کرائے پر بھی نہیں لے گا تو انہوں نے اپنے سٹور کو تالا لگا لیا تاکہ اس سے بقیہ مہینوں کا کرایہ لیا جائے گویا سٹور میں موجود سامان کو اپنے قبضے میں کر لیا، اس بات کو اب تین سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اس شخص کا مال اسٹور میں موجود ہے سٹور مالک کے قبضہ میں ہے وہ تبھی سے دکان دار کو سوال اٹھانے کا کہہ رہے ہیں اور جتنا بھی کرایہ دے سکتا ہے اتنا مطالبہ کر رہے ہیں
وہ دکاندار کہہ رہا ہے کہ اب میں نے مال بھی نہیں لینا اب یہ فیصلہ اللہ ہی کرے گا
مالکان کا سوال ہے کہ اس سلسلہ میں ہمارے لیے شرعی رہنمائی کیا ہے کہ ہم دکان کا سامان بیچ کر اپنا نقصان پورا کر سکتے ہیں یا اور کوئی حکم ہے؟
جواب
پیارے بھائی سادہ اصول یاد رکھیں جو چیز باہمہ رضامندی سے طے ہوتی ہے اسکی خلاف ورزی پہ گناہ ہوتا ہے اور اس پہ معروف طریقے سے طے کر کے جرمانہ بھی لیا جا سکتا ہے۔
اب اوپر سوال میں یہی نہیں واضح پتا چل رہا کہ باہمہ رضامندی سے طے کیا تھا اور پھر خلاف ورزی کس کی کس نے کی ہے۔
دیکھیں کرایہ بڑھانے کا کرایہ نامی میں لکھا ہوتا ہے یا زبانی طے ہوتا ہے کیا اسکے مطابق بڑھایا گیا تھا؟
اگر بڑھانے کا طے نہیں تھا تو پھر جس وقت بڑھانا چاہا تھا اس وقت دونوں کی رضامندی لازمی چاہیے ہو گی ورنہ مالک اپنی دکان خالی کرنے کا کہ سکتا ہے۔
اس پہ پھر سوال اٹھتا ہے کہ خالی کرنے کا نوٹس دینا ہوتا ہے وہ بھی کرایہ نامی یا زبانی طے ہوتا ہے وہ کتنے ماہ تھا؟ یعنی نوٹس کے کتنے دن میں دکان خالی کرنی لازمی تھی؟
اگر وہ بھی طے نہیں تھا تو معروف وہاں کتنے ماہ ہے وہ دیکھا جائے گا۔
ان سب چیزوں کے کلئیر ہونے کے بعد یہ دیکھا جائے گا کہ کس نے ان کی خلاف ورزی کی ہے اور اس پہ باہمہ رضامندی یا معروف طریقے سے کیا جرمانہ بنتا ہے۔
سوال کرنے والے کو بھی چاہیے کہ مکمل معلومات دے ورنہ جواب کیسے دیا جائے
پس ان ساری باتوں کی روشنی میں اگر کرایہ بڑھانا لکھا تھا اور مالک نے اس کے تحت بڑھایا ہے تو پھر تو اسکو وہ دینا لازم تھا۔
اگر نہیں تو پھر جتنے دن کا نوٹس طے تھا اتنے دن پرانا کرایہ چلا کر خالی کر دینا چاہیے تھا اگر اس نے ایسے ہی کیا اور پھر بھی مالک نے سامان اٹھانے نہیں دیا تو پھر مالک قصور وار ہے
لیکن اگر دکاندار نے زیادہ عرصہ خالی نہ کی تو وہ گناہ گار ہے اسکو باقی ماہ کا نیا کرایہ دے کر خالی کرنی چاہیے تھی اگر اس نے ایسا ہی کرنا چاہا تھا اور مالک نے تاکہ لگا دیا تو مالک قصور وار ہوا
غرض ہر معاملے میں اگر مگر ہی رہے گا
بہتر ہے آپس میں بیٹھ کر دوبارہ طے کر لیا جائے اور جس کو آخرت کا ڈر ہے وہ اپنا حق چھوڑتے ہوئے دوسرے کو اختیار دے دے کہ تم جو چاہوں انصاف سے طے کر لو ہمیں منظور ہو گا کیونکہ اپنا حق چھوڑنے والے کو بہت بڑی بشارت دی گئی ہے۔ واللہ اعلم
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ
اگر کوئی اپنا پیسہ واپس لینے کے لیے ایسا کر رہا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ وہ کوشش کر چکا ہو اور دوسرے ذرائع سے پیسہ واپس نہ مل رہا ہو۔ بس یہ دھیان رہے کہ وہ حد سے تجاوز نہ کرے، یعنی جو پیسہ اس کا بنتا ہے بس وہی لے، باقی سامان اس کے حوالے کر دے اور گواہ بھی رکھے۔
حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص قرضہ لیتا ہے یا کوئی چیز لیتا ہے پھر وہ دیوالیہ ہو جاتا ہے، تو جنہوں نے اسے دیا ہوتا ہے وہ اس کی چیزوں کے زیادہ حق دار ہوتے ہیں بہ نسبت دوسرے لوگوں کے۔ یعنی وہ چیزیں قبضے میں لے کر اپنا حق حاصل کر سکتا ہے۔ یہ اسی طرح کی صورت ہے، اس لیے یہ جائز ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ