سوال (5523)
معلوم یہ کرنا تھا وہ جو تخت لے کر آیا تھا نا ملکہ بلقیس کا وہ جن تھا یا انسان کیا اس کی اپنی یہ طاقت تھی یا یہ اللہ کی طرف سے تھا کرشمہ اس کی وضاحت کردیں کوئی ٹھوس جواب نہیں مل پایا ہے؟
جواب
قرآن مجید میں اس واقعے کو یوں بیان کیا گیا ہے:
قَالَ عِفْرِيتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ ۖ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ- قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ ۚ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي… (سورۃ النمل:39-40)
“جنات میں سے ایک زبردست بولا: میں اسے آپ کے پاس لے آؤں گا اس سے پہلے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں، اور بے شک میں اس پر پوری قدرت رکھنے والا (اور) امانت دار ہوں۔ (اس پر) وہ شخص بولا جس کے پاس (اللہ کی) کتاب کا علم تھا: میں اسے آپ کے پاس لے آؤں گا اس سے پہلے کہ آپ کی پلک جھپکے۔پھر جب سلیمان (علیہ السلام) نے اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے…”
دو افراد نے پیشکش کی: پہلا ایک طاقتور جن (عفریت) تھا جو تخت لانے کی پیشکش کرتا ہے۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے “الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ” (جس کے پاس کتاب کا علم تھا)۔ یہ دوسرا شخص ایک انسان تھا، نہ کہ جن۔ سیاق و سباق سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔ وہ انسان جس کے پاس “کتاب کا علم” تھا، اس نے یہ کام کر دکھایا۔ اس کی قوت اور طاقت درحقیقت اس علم کی بدولت تھی جو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ یہ بالکل واضح ہے کہ یہ طاقت اس انسان کی اپنی ذاتی یا پیدائشی نہیں تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک معجزہ تھا جو اس بندے کے ذریعے ظاہر ہوا۔ خود سلیمان علیہ السلام نے جب تخت اپنے سامنے دیکھا تو فوراً کہا: “هَٰذَا مِن فَضْلِ رَبِّي” (یہ میرے رب کا فضل ہے)۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ کی قدرت اور اس کے فضل سے ہوا۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ
پہلا جواب کہ شریعت محمدی میں اب بات کی کوئی وضاحت نہیں کہ تخت لانے والا جن تھا یا انسان تھا تفسیر میں بغیر ٹھوس دلیل کے انسان کا بھی ذکر ملتا ہے جس کا نام اسرائیلیات سے آصف بن برخیاہ ملتا ہے البتہ اسرائیلیات حجت نہیں پس جن کا ہونا بھی ممکن ہے بلکہ اسکا احتمال زیادہ ہے جیسا کہ عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ نے اسکی تفسیر میں لکھا ہے۔
دوسرا سوال کہ یہ اسکی اپنی طاقت تھی یعنی ما تحت الاسباب یہ کام کیا تھا یا پھر اللہ کی طرف سے ہوا تھا یعنی ما فوق الاسباب یہ تخت لائے تھے۔
تو اس بارے بھی شریعت سے کوئی ٹھوس دلیل موجود نہیں ہے دونوں چیزیں ممکن ہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ یہ ایسا جن ہو جس کو اللہ نے طاقت ہی ایسی دی ہو جو کسی اور جن کو نہ دی ہو تو یہ ما تحت الاسباب لانا ہو گا کیونکہ اس کا امکان اس لئے ہے کہ سلیمان علیہ السلام کو بھی ایسی حکومت دی گئی تھی جو کسی اور کو نہیں دی گئی پس ہو سکتا ہے ان میں کسی جن کو ایسی طاقت دی گئی ہو جو کسی اور جن کو نہ دی گئی ہو۔
البتہ یہ مافوق الاسباب بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ نے سلیمان علیہ السلام کو دکھانے کے لئے ایسا کتاب کے علم رکھنے والے سے کروایا ہو تاکہ انکو علم ہو کہ تمھاری رعایا میں ایسے بھی ہیں جو اتنی طاقت رکھتے ہیں تبھی آپ نے اس پہ ھذا من فضل ربی کہا۔
لیکن ان دونوں ماتحت الاسباب یا ما فوق الاسباب والے احتمالات میں یہ عقیدہ نہیں رکھا جا سکتا کہ پھر آج بھی کوئی ولی اس طرح مدد کر سکتا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ مافوق الاسباب طاقتیں اس کے اختیار میں نہیں ہوتی ہیں اگر یہ طاقتیں کسی ولی کے اختیار میں ہوتیں تو اس پہ لازم تھا کہ انکو استعمال کر کے مسلمان مظلوموں کی ہر جگہ مدد کرے جیسا کہ تعاونوا علی البر واتقوی کے تحت وہ اسکا مکلف تھا۔
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ