سوال (1667)

ممنوعہ اوقات میں فرضی نماز پڑھنا کیسا ہے؟

جواب

علامہ شوکانی رحمہ اللہ اپنی کتاب نیل الاوطار میں رقم طراز ہیں کہ

“من نسي الصلوة فلیصلها اذا ذکرها”. [صحیح مسلم :کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ ،باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ ،رقم ۱۵۶۶]

“جو شخص نماز بھول جائے تو جب اس کو یاد آئے پڑھ لے” اس حدیث کا سیاق اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ وہ اشخاص جن کی نمازیں کسی بنا پر چھوٹ گئی ہوں وہ ان نمازوں کو اوقات ممنوعہ میں بھی قضا کرسکتے ہیں۔
[نیل الاوطار:۳؍۱۷۸]
امام ابو حنیفہ کا قول اس سلسلہ میں یہ ہے کہ تین اوقات میں فوت شدہ نمازوں کی قضا جائز نہیں ۔
(1) : سورج کے طلوع ہونے کے وقت ۔
(2) : غروب ہونے کے وقت ۔
(3) : زوال کے وقت ۔
[الفقہ علی المذاہب الاربعۃ :۱؍۳۸۴۔المحلی لابن حزم :۳؍۹ ]
امام احمد بن حنبل ،امام مالک ،امام شافعی ،اسحاق اور امام اوزاعی کا مسلک یہ ہے کہ فوت شدہ نمازوں کی قضا ممنوعہ و غیر ممنوعہ تمام اوقات میں جائز لیکن اصحاب الرای کا مذہب یہ ہے کہ فوت شدہ نمازوں کی قضا اوقات ممنوعہ میں جائز نہیں ہے۔
[عون المعبود :۲۲۷]
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جن اشخاص کی فرض نمازیں چھوٹ گئی ہوں تو وہ ان کو تمام اوقات میں قضا کرسکتے ہیں۔
[المجموع الفتاوی :۲۲؍۱۰۴]
دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جو شخص فجر کی ایک رکعت سورج طلوع ہونے سے پہلے پالے تو چاہیے کہ وہ دوسری رکعت بھی پڑھ لے ۔
[سنن ترمذی :کتاب الصلاۃ ،باب فیمن أدرک رکعۃ من العصر ،رقم ۱۸۶،و صححہ الالبانی رحمہ اللہ]

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ