سوال (6100)
یہ ایک عبرت ناک اور دل دہلا دینے والی حقیقی روایت ہے جو امام ابنِ کثیر نے اپنی مشہور کتاب البدایہ والنہایہ میں لکھی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ ایک جماعت کے پاس سے گزرے تو فرمایا “تم میں ایک ایسا شخص ہے جس کا ایک دانت جہنم میں احد پہاڑ سے بڑا ہوگا”
یہ سن کر سب کے دل کانپ گئے۔ وقت گزرتا گیا اس جماعت کے سب لوگ ایمان و سلامتی پر دنیا سے رخصت ہو گئے۔ صرف دو باقی رہے حضرت ابوہریرہؓ اور بنو حنیفہ کا ایک شخص الرّجّال بن عنفوہ یہ رجّال ان لوگوں میں سے تھا جو نبی ﷺ کے پاس آئے، اسلام سیکھا، قرآن یاد کیا، عبادت گزار اور زاہد بنا رہا حتیٰ کہ لوگ اس کی عبادت اور خشوع کی مثالیں دیتے۔ مگر نبی ﷺ کی وہ بات ابوہریرہؓ کے ذہن میں رہ گئی، وہ ہر بار رجّال کو دیکھ کر ڈرتے کہ کہیں وہی نہ ہو جس کا ذکر نبی ﷺ نے فرمایا تھا۔ پھر وقت آیا جب مسَیلمہ کذّاب نے یمامہ میں نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا، خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ نے رجّال بن عنفوہ کو یمامہ بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو اسلام پر قائم رکھے۔ مگر جب رجّال وہاں پہنچا تو مسیلمہ نے اسے عزت، مال اور سونا پیش کیا اسے کہا کہ “اگر تو میرے ساتھ ہو جائے تو آدھی حکومت تجھے دے دوں گا” مال و دولت نے اس کے دل کا ایمان چھین لیا اور وہ شخص جو نبی ﷺ کا ساتھی رہا، قرآن پڑھتا تھا، نماز و روزے کا پابند تھا، وہی جھوٹے نبی کا مددگار بن گیا۔ رجّال نے اعلان کیا کہ “میں نے محمد ﷺ سے سنا کہ مسیلمہ ان کے ساتھ نبی بنایا گیا ہے”
اس ایک جھوٹ نے ہزاروں کو گمراہ کر دیا، یہ فتنہ مسیلمہ کے فتنہ سے بھی بڑا بن گیا، پھر حضرت ابوبکرؓ نے خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں لشکر روانہ کیا۔
اسی لشکر میں وحشی بن حربؓ بھی تھے — وہی جنہوں نے زمانہ جاہلیت میں حضرت حمزہؓ کو شہید کیا تھا۔
وحشیؓ نے توبہ کی تھی اور کہا تھا “میں اس جرم کا کفارہ جہاد سے ادا کروں گا” جب جنگ یمامہ شروع ہوئی، تو سخت ترین لڑائی ہوئی ابتدا میں مسلمان پسپا ہوئے مگر پھر صحابہ نے نعرہ لگایا، قرآن والے جمع ہوئے، اور اللہ نے مدد فرمائی، وحشیؓ نے موقع پا کر مسیلمہ کذاب کو قتل کر دیا۔ اور رجّال بن عنفوہ بھی اپنے جھوٹے نبی کے ساتھ مارا گیا — کفر پر، ذلت کے ساتھ جب ابوہریرہؓ کو اس کی خبر ملی تو وہ سجدے میں گر گئے اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ نجات ان کے حصے میں آئی۔ یہ قصہ ہمیں سکھاتا ہے رجّال بن عنفوہ قرآن پڑھتا تھا، عبادت گزار تھا، مگر انجام بد پر ہوا۔ اور وحشی بن حربؓ نے سب سے بڑا گناہ کیا مگر توبہ کی اور انجام ایمان پر پایا۔
تو اے انسان اپنی عبادت پر فخر نہ کر اپنی نیکیوں پر گھمنڈ نہ کر دعا کر کہ اللہ تیرا انجام ایمان پر کرے۔
اللهم ثبتنا علی دینک و اختم لنا بخیر
اللهم صل وسلم علی سیدنا محمد ﷺ
جواب
من هو (الرَّجال بن عنفوة) وما خبره؟ الإسلام سؤال وجواب https://share.google/SNKiZWHrbZ7JgDR5A
سند صحیح نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
الرجال بن عنفوہ کے بارے میں تمام روایات سخت ضعیف ہیں۔
لیکن اس طویل متن سے مجھے کہیں نہیں ملی ہے۔
اور جو مصادر ملے ہیں۔
ان سے بعض کی مختصر اسنادی حیثیت ملاحظہ کریں:
یہ واقعہ طویل متن سے تاریخ طبری: 3/ 287 میں ہے لیکن سخت ضعیف ہے۔
اس کی سند میں سیف بن عمر التمیمی راوی ناقابل حجت ہے۔
اسی طرح دارقطنی نے ایک طریق سے نقل کیا ہے مگر سند میں سیف بن عمر التمیمی راوی ناقابل حجت ہے۔
المؤتلف والمختلف: 2/ 1063
مختصرا مسند الحمیدی: (1211) میں ہے اس سند میں رجل من بنی حنیفہ نا معلوم ہے اور عمران بن ظبیان میں سقم ہے۔
حافظ بوصیری نے کہا:
ﻫﺬا ﺇﺳﻨﺎﺩ ﺿﻌﻴﻒ
إتحاف الخيرة المهرة: (3471) 4/ 233
طبقات ابن سعد: 1/ 240 میں طویل متن سے ہے مگر اس سند میں محمد بن عمر الواقدی راوی.
ناقابل حجت ہے اور علی بن مدائنی مجاہیل سے روایت کرتا ہے۔
ایک روایت طبرانی کبیر: (4434) 4/ 283 میں ہے مگر سند میں واقدی سخت ضعیف راوی ہے۔
اس شخص کے بارے میں حافظ ابن حجر نے کہا:
ﻗﻠﺖ: ﻟﻜﻨﻪ اﺭﺗﺪ ﻭﻗﺘﻞ ﻋﻠﻰ اﻟﻜﻔﺮ
الإصابة في تمييز الصحابة: 3/ 446(2768)
اس واقعہ کی تمام اسانید ضعیف وناقص ہیں لہزا اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ




