سوال
مفتی صاحب! 2016 میں محمودہ بیگم کو شوہر کی وراثت ملی۔ جوکہ شوہر کی وفات کے بعد سوتیلے بیٹے نے روپے کی صورت میں ادا کی۔ بحیثیت بیوی شوہر نے ان کے نام جو حصہ کیا تھا اس سے یہ حصہ کل 1450000 ساڑھے چودہ لاکھ روپے پاکستانی تھا۔
محمود نے پرزور اصرار کیا کہ یہ پیسے مجھے دیے جائیں۔ مگر والدہ نے سابقہ ریکارڈ اور معاملات کو دیکھتے ہوئے اسے صرف 150000 یعنی ڈیڑھ لاکھ روپے دیے۔ اور بیٹی جو مسلسل شادی کے بعد سے 2007 سے کچھ نا کچھ حسب توفیق خرچہ بھیجتی آ رہی تھی، عزت نفس کو برقرار رکھنے کے تحت 1300000 تیرہ لاکھ روپے انہیں امانتا دیے کہ چلو اسے انوسٹ کر لو اور فائدے کے طور پر مجھے بھیجتے رہو جو خرچہ ماہانہ بھیجتے ہو۔ بیٹی نے وہ پیسے پاکستان سے ڈنمارک منگوا لیے کہ وہ وہیں سکونت پذیر ہے۔ اور والدہ کی ضرورت کے مطابق ماہانہ خرچے کا سلسلہ جاری رکھا جو کہ انوسمنٹ کے منافع سے زیادہ ہوتی تھی۔ اس سب معاملات کا کوئی تحریری ثبوت وغیرہ نہیں ہے۔ یہ سب ماں اور بیٹی کے درمیان میں تھا۔ کہ بیٹی 2007 سے 2016 تک مالی حسن سلوک کی بنا پر اعتماد حاصل کرچکی تھی۔ البتہ اس معاملے پر اس وقت خاندان کے بڑوں کو گواہ بنایا گیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ محمود اب وہ پیسہ واپس مانگ رہا ہے اور مانگ بھی ڈنمارک کی کرنسی کے مطابق رہا ہے کہ اس وقت تیرہ لاکھ کی ویلیو زیادہ تھی۔ جبکہ والدہ یعنی محمودہ بیگم کا اب بھی نہ کوئی تقاضہ ہے اور نہ ادائیگی کے وقت کوئی شرط طے ہوئی تھی کہ واپسی ڈنمارک کی کرنسی میں ہوگی۔
وضاحت: محمود: سگا بیٹا، محمودہ بیگم: والدہ، منذرہ: سگی بیٹی
سوالات:
1۔ کیا محمود کا اس طرح بذات خود مطالبہ کرنا جائز ہے؟ جبکہ ماں حیات ہیں اور بیٹی کی جانب سے ماہانہ رقم ابھی بھی ان کے لیے بھیجی جا رہی ہے۔
2۔کیا ایکسچینج ریٹ پر پیسوں کا مطالبہ جائز ہے؟
اگر ہاں تو کیا اس وقت کی قانونی کارروائیوں مثلا ٹیکس اور فیس وغیرہ کا حساب کتاب کاٹا جائے گا؟
اگر نہیں جائز تو کیا یہ سود ہوگا؟
برائے مہربانی فتوی عنایت فرما کر شکریے کا موقع دیجیے۔ جزاکم اللہ خیرا
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
سوال میں دو انداز اختیار کیے گئے ہیں، ایک بار کہا گیا کہ بیٹی کو رقم بطور امانتا رکھوائی گئی، جبکہ دوسری دفعہ یہ کہا گیا کہ یہ بطور انویسٹمنٹ رقم رکھوائی گئی ہے، بہر صورت بیٹا محمود ماں کی حیات میں اس رقم کا مطالبہ نہیں کر سکتا، کیونکہ اس کا ان پیسوں میں کوئی اختیار نہیں ہے، والدہ جس کے پیسے ہیں، وہ حیات ہیں، اور انہیں مکمل اختیار ہے کہ وہ اپنے پیسے کسی کے پاس امانتا رکھوائیں، انویسٹ کریں وغیرہ۔
ہاں والدہ اگر اپنے پیسے واپس لینا چاہتی ہیں، تو اگر امانتا رکھوائے ہیں تو جس کرنسی میں تیرہ لاکھ دیے ہیں، اسی کرنسی میں تیرہ لاکھ واپس لے لیں، اس میں کم بیشی جائز نہیں ہے۔ اور اگر بطور انویسٹمنٹ رکھوائے ہیں تو پھر وہ اپنی اصل رقم اور اس پر جو منافع ہے، وہ واپس لے سکتی ہیں۔ اور اگر وہ والدہ ساتھ ساتھ لیتی رہی ہیں، جیسا کہ سوال میں ذکر ہے تو وہ بھی درست ہے۔
بہرصورت یہ بات بالکل واضح ہے کہ پیسہ لینے نہ لینے کا اختیار والدہ کا ہے، جس کی رقم ہے، بیٹے کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ اپنی بہن سے مطالبہ کرے کہ میری والدہ کے پیسے مجھے واپس کرو، اگر بیٹے کی ضرورت ہے تو وہ والدہ سے درخواست کرسکتا ہے کہ مجھے پیسے چاہییں، والدہ اگر مناسب سمجھیں تو بیٹے کو دیں، نہ سمجھیں تو نہ دیں۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ




