ہم سے پہلے بہت سارے علماء کرام اورمحققین گذرے ہیں۔ جن کے ساتھ ہم کبھی کبھار بعض مسائل میں مناقشہ اور اختلاف کرتے ہیں۔  ان کے پیروکار اس اختلاف کو بہت براجانتے اوراس کا بہت برا مناتے ہیں۔ ہم ان کے ساتھ اختلاف ان کی شان گھٹانے یا اپنی حیثیت بڑھانے کے لیے کبھی نہیں کرتے اور ان سے بعض وجوہ اوراسباب کی بنا پرمناقشہ اوراختلاف کرتے ہیں جن کاذہن میں رہنا بہت ضروری ہے، اس اختلاف کے بہت ساری  وجوہات ہوتی ہیں جن کو سمجھنا ان تمام اہلِ دین کے لیے  ضروری ہے۔

جو قران وسنت کو حرفِ آخر سمجھتے ہیں اور علماء کرام کو انبیاء کی طرح معصوم نہیں مانتے۔  عام طور پرمتقدمین علماء کرام نے دوحیثیتوں سے کام کیا ہوتا ہے۔ (1) ایک یہ ہے کہ انہوں نے جوکچھ لکھاہےاس کو دوسرے متقدمین علماء سے نقل کیاہوتا ہے ، اس میں ان کاکام صرف جمع وترتیب کااورنتائج کا اخذ واستفادہ ھوتا ہے (2) دوسرا یہ ہے کہ انھوں اپنے علم و فکر کے نتائج اورآثارکو لوگوں کے سامنے پیش کیا ھوتاہے ،اوراس پر کوئی فلسفہ کھڑا کیا ہوا ہوتا ہے۔  ان دونوں میں بہت ساری کمزوریوں اورخامیوں کے امکانات موجود ہیں ہم صرف چند کی طرف اس وقت توجہ دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔

(1) پہلے والا تحقیقی کام جو نقل پرمبنی ہوتا ہے  اس میں بالعموم دس(10) غلطیاں درآتی ہیں ہم ان کو نقل میں ان علماء کرام کو جھوٹے اور خائن نہیں سمجھتے، مگراخذ ونقل کی اس باب میں عام طور سے یہ (10) غلطیاں لوگوں سے ہوجاتی ہیں (1) پہلی بات یہ ہے کہ جو بات اس ناقل عالم نے اپنی کتاب میں نقل کی ہے، وہ محققین علماء اور آیمہ کی رائے نہیں ہوتی ہے مگر اس کو یہ غلط فھمی کسی کی اتباع یا پھر کسی اشتباہ کی وجہ سے ہوجاتی ہے کہ یہ ان کا قول اوررائے ہے۔  (2) دوسری بات یہ ہے کہ جو اقوال یا روایات اس ناقل عالم نے نقل کیے ہیں۔ وہ اس واقعہ یا حادثہ کے وقت حاضر اورشاہد لوگوں کے نہیں ہیں۔ بلکہ متاخرین کے اقوال وروایات ہیں ، جن کونقل کرنے میں اس ناقل عالم صاحب کو غلطی لگی ہے اور اسے انھوں نے اس واقعہ میں قولِ فیصل سمجھ لیا ہے۔

(3) تیسری بات یہ ہے کہ اس ناقل عالم صاحب نے جواقوال و روایات نقل کیے ہیں۔ ان کی اسناد میں خلل اور علل موجود ہیں۔ اورجن کوچھوڑ دیا ہے ، وہ روایات اس خلل اور ان علل سے محفوظ ہیں مگر کسی وجہ ان کو اس پر اطلاع نہیں ھوسکی ہے ، (4) چوتھی بات یہ ہے کہ اس عالم صاحب نے جوکچھ ایک امام اور ثقہ راوی سے نقل کیاہے ، اس قول سے اس امام اور راوی نے رجوع کیاہوتاہے ، مگر ناقل عالم کو اس کا پتہ کسی وجہ سے نہیں ہوسکا ہوتاہے۔ اس لیے انھوں نے اس مرجوع عنہ قول پر اعتماد کیاھوتا ہے یہ رجوع ان کی کبھی ایک ہی کتاب کے اول وآخر میں ہوتی ہے اور کبھی مختلف تصانیف میں سامنے آتی ہے۔

(5) پانچویں بات یہ ہے کہ اس عالم نے جو عبارت کسی دوسرے راوی یا عالم کی نقل کی ہوتی ہے۔  اسے یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اس عالم کی فکر میں اس مخصوص مسئلہ کے حوالے سے انحراف پایا جاتا ہے تو وہ اس کے قول کو اس طرح نقل کرتے ہیں جیسے ان کایہ قول بھی ان کے دیگر اقوال کی طرح مسلمہ ہو۔ ہم یہاں جزوی انحراف کی بات کرتے ہیں ،(6) چھٹی بات یہ ہے کہ جس ثقہ راوی اورامام کی بات کو اس عالم نے نقل کیا ہوتا ہے، بعض اوقات خود اس امام کو بھی کسی ضعیف روایت یا کسی کی اتباع کی وجہ سے غلطی پڑگئی ہوتی ہے۔  جس کی تصریح دیگر آیمہ ومحدثین عام طور کرلیتے ہیں۔

مگر ناقل عالم کو کسی وجہ سے اس غلطی کا پتہ نہیں چلتا،  (7) ساتویں وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات ناقل عالم عام فھم قول کو آسانی کی بنا پرلیتے ہیں۔  پیچیدہ اورمغلق قول کو چھوڑدیتے ہیں۔  حالانکہ ثبوت اور دلائل کے لحاظ سے وہ مغلق اورپیچیدہ قول ہی لائقِ التفات ہوتاہے ، (8) آٹھویں وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات ناقل کثرتِ قائلین سے متاثر ہو جات ہے اور اس قول کو معتبر جان کرنقل کردیتا ہے جبکہ فی الحقیقت دلیل کے اعتبار سےمعتبرقول وہی ہوتا جو انھوں نے چھوڑ دیاہوتا یے اگرچہ اس کے قایلین کم تعداد میں ہوتے ہیں ،(9) نویں بات یہ ہوتی ہے کہ بعض اوقات ناقل عالم کے پاس کچھ کتابیں ہوتی ہیں ، جن کے مولفین کے بارے میں عام طور پرمشہور ہوتا ہے کہ وہ اہلِ سنت کے اکابر میں سے ہیں  مگر اس فن کے محققین کو پتہ ہوتا یے کہ ان لوگوں کا اہل سنت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے ، مگر ناقل عالم قولِ عام کے مطابق انہیں اہلِ سنت سمجھ کران سے اپنی رائے کی تایید میں اقوال نقل کرتا ہےاور دوسروں پرحجت بناتاہے

(10) دسویں بات یہ ہے کہ ناقل عالم کبھی متعارض اقوال وروایات میں زندگی کا بڑاحصہ لگانے اورمحنت سے بچنے کے لیے اپنی سھولت کی خاطر وہ اقوال نقل کرتا ہے، جن سے ان کے خیال میں مسئلہ آسانی کے ساتھ حل ہوجاتا ہے ، مگر اس کو یہ خیال نہیں رھتاکہ مستقبل میں اس قول سے بہت سارے فتنے پیدا اور نمایاں ھوجائیں گے ، ان اور ان جیسے دیگر وجوہات واسباب کی بناپر عموما ہم اپنے بڑے اکابر سے اختلاف کی جراءت کرتے ہیں نہ جاننے والے احباب ہمارے اس عمل کو ہماری بدنیتی ، دین دشمنی ، دوسروں کی بے عزتی پر محمول کرتے ہیں ،والی اللہ المشتکی.

واصل واسطی