سوال (4238)

ایک بندے نے اپنی منگیتر سے شادی سے پہلے ملاقات کر لی ہے اور ایک ماہ کے بعد شادی ہوگئی، اب بیوی کو حمل ہوگیا ہے، غالب گمان کے مطابق شادی سے پہلے کی ملاقات میں حمل ہوا ہے، اب اس حمل کا کیا کیا جائے اس کو ضائع کیا جائے یا باقی رکھا جائے؟
اور اگر باقی رکھا جائے تو اگر لڑکا ہوتا ہے تو کیا اس کا نام عمر فاروق رکھ سکتے ہیں؟

جواب

میرے خیال میں ہر بات علماء کے کندھے پر نہ رکھیں، لوگوں کی شدید دینی تربیت کی ضرورت ہے، ان کے دلوں میں اللہ کا خوف جاگنے کی ضرورت ہے، اگر ایسا ہوگیا ہے، ہمارے ہاتھوں میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے، جو بطور سزا ان کو دیں، تو مسئلے پر پردہ ڈالنا چاہیے، ستر پوشی سے کام لینا چاہیے، باقی جن کا معاملہ ہے، وہ اس کو دیکھ لیں کہ اس کو کس طریقے سے ڈیل کرنا ہے، دلائل کی رو سے بچے کو ضائع کرنے کی جائز نہیں ہے، باقی رہا نام کا معاملہ تو نام کوئی بھی رکھا جا سکتا ہے، البتہ انسان اپنے فعل پر نادم اور شرمندہ ہے، تو کوئی چلتا پھرتا نام رکھ لے، یقیناً اس نام کی تعظیم و تکریم ہے، اس لیے اپنے آپ کو مزید مشقت میں نہ ڈالے، ایسا نام رکھے جس سے اس کو شرمندگی ہو، یا بات کل کو کھلے تو لوگ اس کو غلط استعمال کریں، اور یہ ابن خطاب رضی اللہ عنہ کی توہین کا سبب بنے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

یہ ولد الزنا ہے، کیونکہ جس وقت انھوں نے یہ کام کیا اس وقت یہ ان کے لیے جائز نہیں تھا۔ اس لیے وہ باپ کا وارث ہوگا نہ ہی اس کی طرف منسوب، وہ بچہ ماں کی طرف ہی منسوب ہوگا اور وارث بھی اسی کا ہوگا.
البتہ اس بچے کو ضائع نہیں کیا جائے گا۔ واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث ابرار احمد حفظہ اللہ

اگر وضع حمل شادی کے چھ ماہ بعد ہوتا ہے تو شبہ کا فائدہ دیتے ہوئے بچے کی نسبت باپ کی طرف کرنی چاہیے، کیونکہ نکاح سے پہلے حمل ٹہرنا بھی سوال کے مطابق غالب گمان کے ساتھ ہے۔ لیکن اگر یقینی طور پر معلوم ہو کہ حمل نکاح سے پہلے ٹہرا ہے تو اس بچے کی نسبت شرعاً باپ یعنی زانی کی طرف نہیں کی جائے گی باقی معاشرہ میں کیا کچھ ہو رہا ہے اللہ ان فتنوں سے سب کو امان میں رکھے۔

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ