منہجِ اہل حدیث کیا ہے؟ معیار کون ہے؟

آئے روز کسی نہ کسی کا منہج زیر بحث ہوتا ہے اور فیصلہ داغ دیا جاتا ہے کہ فلاں بدعتی ہے، فلاں ملحد ہے اور وجہ کوئی بھی نہیں، فلاں سے سلام لیا تھا، فلاں کی تعریف کی ہے…!!
تعامل کے حوالے سے ہمارے اہل حدیث کا وہ منہج نہیں ہے، جسے بڑے زور و شور سے درست باور کروایا جاتا ہے اور اس کی مخالفت کرنے والوں پر لعن طعن کی جاتی ہے.
بعض علماء کی انفرادی آرا یا بعض نوجوانوں کی جذباتی توتکار سے منہج کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا، بلکہ جامعہ رحمانیہ لاہور اور جامعہ سلفیہ فیصل آباد جیسے بڑے اداروں کے منتظمین اور علماء و مشایخ کا منہج در اصل اہل حدیث کا منہج ہے کہ سنت پر تمسک کے ساتھ ساتھ مخالف کے ساتھ تعامل میں وسعت ظرفی کا مظاہرہ کیا جائے۔
محض جذباتی گفتگو کی بجائے اہل حدیث مدارس، اکابرین اہل حدیث کی کتابیں، اور تمام سلف صالحین کے حوالہ جات کے ساتھ گفتگو کی جائے۔
یہ تقلیدیوں والی تنگ نظریاں ہیں کہ کسی سے بات نہ کریں، کسی سے سلام نہ لیں، کسی کو مسجد میں داخل نہ ہونے دیں اور اگر کوئی آ جائے تو مسجد کو غسل دیں.. وغیرہ.
ہمارے اکابرین اتنے تنگ نظر ہوتے کہ کسی کی مسجد میں نہیں جانا اور کسی کے پیچھے نماز نہیں پڑنی تو متعصب مخالفین کو ’مسجدوں سے وہابیوں کے اخراج’ کے فتوے اور کتابیں مرتب کرنے کی ضرورت پیش نہیں آنی تھی..!
پہلے معیار تہہ کریں، اس پر دلائل قائم کریں، جو قرآن وسنت اور سلف صالحین کے منہج کے مطابق معیار ہو، اس پر کسی کے ہدایت یافتہ یا گمراہ ہونے کا فیصلہ کریں.
خود گمراہی کی دلدل میں پھنس کا دوسرے کے بارے میں فیصلہ نہ کریں کہ اس کا منہج درست ہے یا غلط ہے..!

#خیال_خاطر

 

یہ بھی پڑھیں:ادب اختلاف