منہجِ سلف کی اتباع شرعاً واجب اور لازم ہے، کیونکہ اس کے بغیر ہدایت کا تصور ہی محال ہے، لہٰذا منہجِ سلف کی اتباع سے متعلق مسائل کو من جملہ چار نکات میں محصور کیا جا سکتا ہے۔
اول:اگر کسی مسئلہ میں سلف صالحین کا اجماع واتفاق ہو تو بعد میں آنے والوں کے لیے اس کو قبول کرنا اور اس کے مطابق عمل کرنا واجب ہے اور اسے چھوڑ کر کوئی دوسرا موقف اختیار کرنا گمراہی ہے، خواہ ایسا کرنے والا کوئی امام اور مجتہد ہی کیوں نہ ہو، لیکن شرط یہ ہے کہ نقل کیا جانے والا اجماع معتبر اور ثابت ہو۔
دوم: اگر کسی مسئلہ میں سلف صالحین کا اختلاف ہو تو ان کے مختلف فیہ اقوال کو چھوڑ کر کوئی نیا قول ایجاد واختیار کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے یہ لازم آئے گا کہ اس مسئلہ میں تمام سلف حق سے محروم تھے جو کہ ناممکن اور نصوص نبویہ کے منافی ہے، البتہ اہل علم کے لیے ان اقوال میں سے کسی ایک کی ترجیح یا ان کے درمیان تطبیق کا عمل جائز ہے۔
سوم: اگر کسی مسئلہ پر سلف صالحین خاموش تھے، حالانکہ ان کے لیے اس پر غور وفکر اور گفتگو کے مواقع اور امکانات موجود تھے تو بعد میں آنے والوں کے لیے اس پر خاموشی اختیار کرنا واجب ہے، الا یہ کہ کوئی اس میں خلافِ شرع موقف پیش کرے تو بطور رد وتنقید بات کرنا جائز ہے جیسا کہ خلق قرآن کے مسئلہ میں امام احمد اور ان کے معاصر اہل علم کا تعامل تھا۔
چہارم: نصوصِ کتاب وسنت کو فہم سلف کے مطابق سمجھنا اور ان نصوص سے اسی طریقے پر استدلال واستنباط کرنا جس طریقے پر سلف صالحین کرتے تھے، مثال کے طور پر ایک حدیث میں ہے کہ ایک صحابی بعد میں آ کر صف میں شامل ہوئے تو سانس تیز ہونے کی وجہ سے بلند آواز سے “الحمد لله حمدًا كثيرًا طيّبًا مباركا فيه” پڑھ دیے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ با آواز بلند ان کلمات کی ادائیگی کرنے والا کون ہے؟ تو سارے صحابہ خاموش رہے۔ آپ نے فرمایا: ویسے اس نے کوئی برا کام نہیں کیا ہے، تو ایک صحابی نے کہا وہ میں ہوں، آپ نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ بارہ فرشتے اسے لینے کے لیے جھپٹ پڑے تھے کہ کون اسے اللّٰہ کے پاس لے جائے گا!!! چنانچہ اس حدیث سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ با آواز بلند ان کلمات کو ادا کرنا بڑا ہی ثواب کا کام ہے لیکن کیا ہمارے لیے جائز ہے کہ ہم سب با آواز بلند ان کی ادائیگی کریں؟ جب ہم اس حدیث کے متعلق سلف صالحین صحابہ وتابعین کا تعامل دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اس سے وہ نہیں سمجھا جو ظاہر و متبادر ہے اس لیے انہوں نے با آواز بلند ان کلمات کی ادائیگی کا اہتمام نہیں کیا۔  اس طرح کی بیشمار مثالیں ہیں جن میں اگر فہم سلف کا اعتبار نہ کیا جائے تو انسان بہت ساری بدعات و خرافات میں مبتلا ہو جائے اور ہلاک وبرباد ہو جائے، اور یہ شرعی ضرورت بھی ہے کیونکہ انسانوں کی عقل و فہم مختلف ہے کسی حدیث سے ایک شخص ایک مفہوم اخذ کرتا ہے تو دوسرا اسی حدیث سے بالکل اس کے برعکس مفہوم اخذ کرتا ہے، اور دونوں میں سے کسی ایک کا فہم دوسرے کے خلاف حجت بھی نہیں ہے، لہٰذا ایسی صورت میں اگر فہم سلف کا سہارا نہ لیا جائے تو نصوص کتاب وسنت لوگوں کی متضاد عقلوں کا شکار ہو کر رہ جائیں گے اور سب اپنی خواہش کے مطابق استدلال واستنباط کرتے پھریں گے اور کوئی کسی کو روکنے ٹوکنے کا مجاز بھی نہیں ہوگا۔
امام ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللّٰہ نے فرمایا:

“فَأَيُّ شَيْءٍ يُتَّبَعُ بَعْدَ كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم وَمِنْهَاجِ السَّلَفِ بَعْدَهُ الَّذِينَ هُمْ مَوْضِعُ الْقُدْوَةِ وَالْإِمَامَةِ؟!”

کتاب اللّٰہ، سنت رسول اللّٰہ اور آپ کے بعد سلف صالحین کے منہج کے علاوہ اور کس چیز کی اتباع کی جائے گی؟ وہ سلف جو اقتداء و امامت کے اہل ہیں!

مامون رشید بن ہارون رشید سلفی