سوال

مجھے ایک مسئلہ پوچھنا تھا کہ میں نے ایک صاحب کو گاڑی بیچی، انہوں نے مجھے ایک مہینہ پہلے پیمنٹ دینی تھی، اور میں نے اس پیمنٹ سے گولڈ خریدنا تھا، لیکن انہوں نے پیمنٹ لیٹ کرتے کرتے مہینہ گزار دیا اور اس مہینے کے اندر اندر گولڈ کی قیمت تقریبا تیرہ سے چودہ ہزار اوپر چلی گئی، میں نے ان کو بتایا کہ میں نے اس رقم سے گولڈ لینا تھا اور اب اسکی قیمت بڑھ گئی ہے، تو وہ کہ رہا ہے کہ پیمنٹ کے حساب سے ایک مہینہ قبل جتنا گولڈ بنتا تھا میں آپ کو خرید کر دے دیتا ہوں، کیا یہ سود کے زمرے میں تو نہیں آئے گا؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

خریدار  نے آپ کے جتنے پیسے دینے تھے وہ اتنے ہی دے گا۔ اس سے رقم کی ادائیگی میں تاخیر ہوگئی، اس وجہ سے اس سے مقررہ رقم سے زیادہ رقم وصول کرنا، یہ قرض پر نفع ہونے کے سبب سراسر ناجائز اور سود ہے۔

کیونکہ مسلمہ اصول ہے:

“كل قرض جر منفعة فهو ربا”. [السنن الصغرى للبيهقي:4/353، آثار المعلمي (18/ 453]

’ہر قرض جو نفع سے مشروط ہو، وہ سود ہے‘۔

اور سود کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے:

“يَمۡحَقُ ‌ٱللَّهُ ٱلرِّبَوٰا”. [البقرة: 276]

’ اللہ تعالی سود کو مٹاتا ہے‘۔

البتہ اگر شروع میں کچھ طے نہ ہو اور قرض لینے والا اپنی خوشی سے حسن ادا، حسن قضا اور سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے کچھ زیادہ ادا کردے تو اسکا جواز ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے اونٹ بطور قرض لیا اور اسکو اس سے اچھا اونٹ خرید کر دیا اور فرمایا:

“فَإِنَّ خَيْرَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً”. [صحیح البخاری: 2390]

تم میں اچھا وہ ہے جو قرض ادا کرنے میں سب سے اچھا ہو۔

لیکن مذکورہ سوال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس شخص کی دلی خواہش، مطالبہ یا کم از کم اشارہ ہے کہ ادائیگی کے لیٹ ہونے کی وجہ سے اسکو جو نقصان ہوا ہے اسکی تلافی کی جائے اور گولڈ کے لحاظ سے مقررہ رقم سے زیادہ رقم واپس کی جائے، جو کہ قرض یا ادھار پر نفع ہونے کی وجہ سے سود کے زمرے میں آئے گا۔

لہذ اس شخص کے لیے مقررہ رقم سے زیادہ رقم لینا درست اور جائز معلوم نہیں ہوتا ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ