سوال (2885)

ایک عورت کے خاوند کو کسی نے قتل کر دیا ہے، قاتلوں نے اس کی دیت ادا کی ہے، سوال یہ ہے کہ اس دیت کا وارث کون ہوگا؟ کیا مقتول کی بیوی اس کی وارث ہو گی؟

جواب

دیت کا مال مقتول کا ترکہ شمار ہو گا، اور جس طرح اس کا بقیہ مال ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہو گا، دیت کے مال کا بھی وہی حکم ہے۔

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : “قَضَى إِنَّ الْعَقْلَ مِيرَاثٌ بَيْنَ وَرَثَةِ الْقَتِيلِ عَلَى قَرَابَتِهِمْ، فَمَا فَضَلَ فَلِلْعَصَبَةِ”. [سنن ابي داود:4564]

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا تھا کہ دیت مقتول کے ورثاء میں ان کی رشتہ داری کے حساب سے تقسیم ہو گی اور (اصحاب الفرائض کو دینے کے بعد) جو بقیہ مال بچے گا، وہ عصبہ کے لیے ہوگا۔
اور یہی عام وراثت اور ترکہ کا اصول ہے، معلوم ہوا کہ دیت کا حکم عام وراثت والا ہی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے اس طرح کا ایک مسئلہ پیش ہوا تھا، جس میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ دیت صرف عصبہ کو ملے گی اور مقتول کی بیوی کے لیے کچھ نہیں ہو گا، لیکن انہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ فیصلہ سنایا گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے موقف سے رجوع کرتے ہوئے دیت کو ویسے ہی تقسیم کیا، جیسا کہ عام وراثت تقسیم کی جاتی ہے۔ [سنن ابي داود:2927]
ہاں البتہ اگر مقتول کا قاتل بھی اس کا وارث بن رہا ہو تو پھر اسے وراثت اور دیت میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا، کیونکہ اصول یہ ہے کہ قاتل کے لیے وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ