سوال (2797)
کیا مرد اور عورت کی نماز میں فرق ہے؟ جن احادیث میں عورت کی نماز میں فرق کو ثابت کیا گیا ہے کیا وہ احادیث سندا صحیح ہیں؟
جواب
ان میں سے کوئی روایت بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ہے، مرد و عورت کے طریقہ نماز میں کوئی فرق کسی بھی صحیح حدیث میں بیان نہیں ہوا ہے۔
میں نے ایک مجموعہ میں اسحاق جھالوی کی ایک وڈیو پر وضاحت کی تھی ۔ وہ بھی میں درج کر دیتا ہوں۔
پہلی بات یہ اسحاق جھالوی نیم رافضی تھا قرآن و حدیث اور منہج سلف صالحین سے ہٹا ہوا تھا اس سے کبار علماء اہل حدیث نے براءت کا اعلان کر رکھا ہے۔
دوسری بات اسحاق جھالوی صاحب جو کہہ رہے ہیں سرا سر غلط ،جھوٹ اور فریب ہے۔
تیسری بات مرد وخواتین کے احکام میں جہاں فرق اور تخصیص شریعت نے نہیں کی ان میں یہ سب یکساں ہیں حکم و اطاعت میں جیسے طریقہ نماز کا مسئلہ ہے اس مسئلہ میں عورت کی نماز میں رکوع وسجود طریقہ نماز میں فرق کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے نہ ہی کسی موقوف روایت سے یہ فرق ثابت ہے۔
ہاں عورت کے لیے نماز کی ادائیگی میں کچھ احتیاط و قیود اور نرمی ہے۔
مثلا:
باجماعت نماز عورت پر فرض نہیں ہے۔
اگر باجماعت پڑھنا چاہتی ہے تو
اس طرح گھر سے نکلے جیسے امہات المومنین ،صحابیات رضی الله عنھن نکلتی تھیں۔
باپردہ ہو کر خوشبو، اور آواز والے زیورات وغیرہ سے پرہیز کرتے ہوئے اور جب امام قراءت وغیرہ کرتے ہوئے بھول جائے تو عورت الٹے ہاتھ پر ہاتھ مار کر یاد کروائے گی اور مرد سبحان الله کہیں گے اب اس فرق کو خود نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے۔
عورت اگر گھر میں نماز پڑھے تو ان چیزوں کا خیال رکھے۔
(1) نامحرم کے سامنے نماز نہ پڑھے۔
(2) جسم پر بڑی اور کھلی چادر لے کر نماز پڑھے۔
(3) گھر کے محفوظ حصے اور اندرونی جگہ یعنی کمرے میں نماز پڑھے۔
اگر گھر میں غیر محرم موجود نہیں ہیں تو صحن میں نماز پڑھ سکتی ہے مگر گھر کے اندرونی حصے میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر وافضل ہے۔
چوتھی بات رہا اسحاق جھالوی کا یہ کہنا کہ تلبیہ آہستہ کہنے کی دلیل کیا ہے تو عرض ہے کہ دلیل وہ حدیث مبارک ہے جس میں عورت امام کے بھولنے پر لقمہ الٹے ہاتھ پر ہاتھ مار کر دے گی نوں کہ زبان سے بول کر
ایسے ہی عورت کو شریعت نے نہ مؤذن مقرر کیا ہے نہ ہی امام مقرر کیا ہے نہ ہی داعی و مبلغ مقرر کیا ہے۔
ہاں عورت عورتوں تک دعوت وتدریس کا کام کر سکتی ہے یا شرعی حدود و قیود میں رہتے ہوئے کسی غیر محرم سے بوقت ضرورت بات کر سکتی ہے۔
تو جن احکام میں عورتوں کے لیے الگ سے حکم و راہنمائی اور تخصیص نہیں بیان کی گئی وہاں یہ عمومی احکام شرعیہ میں ویسے ہی شامل ہیں جیسے مرد شامل ہیں۔
نماز کے سلسلہ میں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان عام ہے۔
ﻭﺻﻠﻮا ﻛﻤﺎ ﺭﺃﻳﺘﻤﻮﻧﻲ ﺃﺻﻠﻲ
[صحيح البخارى : 6008 وغیرہ]
تو اس حدیث مبارک میں سب شامل ہیں الا کہ کوئی الگ سے حکم و رہنمائی کتاب وسنت میں بیان ہو تو ایسی کوئی دلیل ہے نہیں اور جو روایات ہیں وہ سب ضعیف اور غیر ثابت ہیں۔
اور اس وڈیو بیان میں جو بے شرمی کی باتیں کی ہیں وہ سب ان کے ذہن و قلب کی خرابی کا نتیجہ ہے جس سے شرعی حیثیت و حکم کبھی نہیں بدلتے ہیں۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
مندرجہ ذیل تحریر میں مولانا غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری صاحب حفظہ اللہ نے مقلدین کے دلائل کا جائزہ لیا ہے اسے ملاحظہ کریں۔
مرد وعورت کے طریقہ نماز میں فرق
تحریر: غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری
مرد اور عورت کے طریقہ نماز میں کوئی فرق نہیں۔ فرق کے قائلین کے دلائل کا علمی و تحقیقی جائز پیش خدمت ہے:
دلیل نمبر:1
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
إِذَا صَلَّیْتَ فَاجْعَلْ یَدَیْکَ حِذَاءَ أُذُنَیْکَ، وَالْمَرْأَۃُ تَجْعَلُ یَدَیهَا حِذَاءَ ثَدْیَیها.
” نماز پڑھیں تو اپنے ہاتھ کانوں کے برابر کریں اور عورت اپنے ہاتھ سینے کے برابر کرے گی۔”
(المعجم الکبیر للطَّبراني : ٢٢/٢٠)
تبصرہ: اس کی سند سخت ”ضعیف” ہے، کیوں کہ
1۔ اس کی راویہ ام یحییٰ ”مجہولہ” ہے۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ (٧٣٥۔٨٠٧ھ) لکھتے ہیں:
لَمْ أَعْرِفْھَا.
”میں اسے پہچان نہیں پایا۔” (مَجمع الزوائد : ٢/١٠٣)
ابن ترکمانی حنفی(٦٨٣۔٧٥٠ھ) لکھتے ہیں:
أَمُّ یَحْيٰ لَمْ أَعْرِفْ حَالَھَا وَلاَ اسْمَھَا.
”میں ام یحییٰ کے حالات نہیں جان نہیں پایا، نہ مجھے اس کا نام معلوم ہوا ہے۔”
(الجوہر النقي في الرد علی البیہقي : ٢/٣٠)
2۔ اس کی راویہ میمونہ بنت عبدالجبار کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
جس روایت کے دو راویوں کی توثیق ثابت نہ ہو، اُسے بہ طور حجت پیش کرنا اہل حق کا وطیرہ نہیں ہو سکتا۔
دلیل نمبر: 2
ابن جریج رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
قُلْتُ لِعَطَاءٍ : تُشِیرُ الْمَرْأَۃُ بِیَدَیْہَا بِالتَّکْبِیرِ کَالرَّجُلِ؟ قَالَ : لَا تَرْفَعْ بِذٰلِکَ یَدَیْہَا کَالرَّجُلِ، وَأَشَارَ فَخَفَضَ یَدَیْہِ جِدًّا، وَجَمَعَہُمَا إِلَیْہِ جِدًّا، وَقَالَ : إِنَّ لِلْمَرْأَۃِ ہَیْئَۃً لَّیْسَتْ لِلرَّجُلِ، وَإِنْ تَرَکَتْ ذٰلِکَ، فَلَا حَرَجَ .
”میں نے عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے پوچھا: کیا عورت تکبیر (تحریمہ) میں مرد کی طرح ہی رفع الیدین کرے گی؟ فرمایا: وہ اپنے ہاتھوں کو مرد کی طرح نہیں اُٹھائے گی، پھر انہوں کی اشارہ کیا اور اپنے ہاتھوں کو بہت زیادہ جھکایا اور آپس میں بہت زیادہ جوڑ کر فرمایا: عورت کے لیے ایسی کیفیت ہے، جو مردوں کے لیے نہیں۔ اگر عورت اس کیفیت کو چھوڑ دے، تو کوئی حرج نہیں۔” (مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٣٩، وسندہ صحیح)
تبصرہ:
یہ قرآن و حدیث نہیں، بل کہ امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کا اجتہاد ہے، وہ بتا رہے ہیں کہ عورت کے ہاتھ اٹھانے کی ہیئت ہے، اگر وہ ہیئت ترک بھی کر دے تو کوئی حرج نہیں، اس بنیاد پر شور مچانا کہ مرد و عورت کے طریقہ نماز میں فرق ہے، غیر مناسب ہے، جو لوگ امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کے اس اجتہاد کو لے کر حق پرست بننے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ان کے کئی اجتہادات جو قرآن و سنت کے مطابق ہیں، محض مذہبی تعصب کی بنیاد پر قبول کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں، ویسے بھی تقلیدِ شخصی کے وجوب کے قائلین کو ان کے اقوال پیش کرنا زیبا نہیں، ان کو چاہئے کہ اپنے امام سے باسند صحیح مرد و عورت کے طریقہئ نماز میں فرق ثابت کریں ورنہ مانیں کہ…
شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٧٣٧۔٨٥٢ھ)فرماتے ہیں:
لَمْ یَرِدْ مَا یَدُلُّ عَلَی التَّفْرِقَۃِ فِي الرَّفْعِ بَیْنَ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَۃِ.
”ایسی کوئی روایت نہیں، جو مرد اور عورت کے رفع الیدین میں فرق پر دلالت کرے۔”
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : ٢/٢٢٢)
دلیل نمبر:3
عبد ربہ بن سلیمان شامی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
رَأَیْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ تَرْفَعُ یَدَیْہَا فِي الصَّلَاۃِ حَذْوَ مَنْکِبَیْہَا حِینَ تَفْتَتِحُ الصَّلَاۃَ، وَحِینَ تَرْکَعُ وَإِذَا قَالَ : سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ، رَفَعَتْ یَدَیْہَا، وَقَالَتْ: رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ.
”میں نے ام الدرداء رحمہ اللہ کو دیکھا کہ وہ نماز کے شروع میں کندھوں کے برابر رفع الیدین کرتیں، اسی طرح جب رکوع کرتیں اور جب سمع اللہ حمدہ کہتیں تو رفع الیدین کرتیں اور ربنا ولک الحمد، کہتیں۔”
(جزء رفع الیدین للبخاري : ٢٥، وسندہ، حسنٌ)
تبصرہ:
الحمد للہ! ہم اہلحدیثوں کے مرد و عورتیں صحابی رسول سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ ام الدرداء رحمہ اللہ تابعیہ کی پڑھی ہوئی نماز کے مطابق نماز پڑھتے ہیں، بعض لوگ ان کے کندھے کے برابر ہاتھ اُٹھانا تو لے لیتے ہیں، لیکن رکوع اور رکوع کے بعد رفع الیدین والا عمل نہیں اپناتے، کیوں؟ جبکہ تابعیہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھائی ہوئی نماز کی طرح نماز پڑھتی تھیں، مرد اور عورت کا نماز میں ہاتھ اٹھانے کے حوالے کے کسی صحیح حدیث میں فرق ثابت نہیں، مدعی پر دلیل لازم ہے، ہم کہتے ہیں کہ مرد بھی حدیث کی پیروی میں کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھا سکتے ہیں، بعض لوگ خواہ مخواہ بغیر دلیل کے فرق ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
دلیل نمبر: 4
امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کہتے ہیں:
تَجْمَعُ الْمَرْأَۃُ یَدَیْہَا فِي قِیَامِہَا مَا اسْتَطَاعَتْ.
”عورت قیام میں جتنا ہو سکے، اپنے ہاتھوں کو جوڑ کر رکھے۔” (مصنف عبد الرزاق : ٢/١٣٧)
تبصرہ:
اس قول کی سند ”ضعیف” ہے، اس میں امام عبد الرزاق بن ہمام ”مدلس” ہیں،جو کہ لفظ ”عن” سے روایت کر رہے ہیں اور سماع کی تصریح ثابت نہیں، لہٰذا سند ”ضعیف” ہے۔
دلیل نمبر: 5
امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کہتے ہیں:
تَجْتَمِعُ الْمَرْأَۃُ إِذَا رَکَعَتْ تَرْفَعُ یَدَیْہَا إِلٰی بَطْنِہَا، وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ، فَإِذَا سَجَدَتْ فَلْتَضُمَّ یَدَیْہَا إِلَیْہَا، وَتَضُمَّ بَطْنَہَا وَصَدْرَہَا إِلٰی فَخِذَیْہَا، وَتَجْتَمِعُ مَا اسْتَطَاعَتْ.
”عورت جب رکوع کرے، تو اکٹھی ہوجائے۔ اپنے ہاتھوں کو اپنے پیٹ کی طرف بلند کرلے اور جتنا ہو سکے، اکٹھی ہو جائے۔ جب وہ سجدہ کرے، تو اپنے ہاتھوں کو اپنی طرف ملائے اور اپنے پیٹ اور سینے کو اپنی رانوں سے ملائے اور جتنا ہو سکے، اکٹھی ہو جائے۔” (مصنف عبد الرزاق : ٢/١٣٧،ح : ٥٠٦٩)
تبصرہ:
سند ”ضعیف”ہے۔ اس میں وہی علت امام عبد الرزاق کی تدلیس موجود ہے۔ ان کے مدلس ہونے پر دلیل (الضعفاء الکبیر للعقیلی : ٣/١١٠۔١١١، وسندہ صحیح) دیکھیں : (الکفایۃ للخطیب، ص ٣٥٧) میں ان کا تدلیس سے بری ہونے والا واقعہ ”ضعیف” ہے، کیونکہ
1۔ بعض اصحابنا نا معلوم ہیں۔
2۔ احمد بن محمد بن عمران راوی کے متعلق حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ (٣٩٢۔٤٦٣ھ) فرماتے ہیں:
وَکَانَ یُضَعَّفُ فِي رِوَایَتِہٖ، وَیُطْعَنُعَلَیْہِفِيمَذْہَبِہٖ،سَأَلْتُالْـأَزْہَرِيَّ، عَنِابْنِالْجُنْدِيِّ،فَقَالَ : لَیْسَبِشَيْءٍ.
”وہ اپنی روایت میں ضعیف قرار دیا جاتا تھا، اس کے مذہب میں طعن کی جاتی تھی، مجھے ازہری نے فرمایا تھا کہ وہ کچھ بھی نہیں۔” (تاریخ بغداد : ٥/٧٨)
دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت میں امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ عورت کے رکوع کے وقت رفع الیدین کرنے کا طریقہ بتا رہے ہیں، جس سے بعض لوگوں کو انتہائی چڑ ہے۔
دلیل نمبر: 6
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عورتیں نماز کیسے پڑھتی تھیں:
کُنَّ یَتَرَبَّعْنَ ثُمَّ أُمِرْنَ أَنْ یَّحْتَفِزْنَ.
”وہ چار زانوں ہو کر بیٹھتیں، بعد میں ان کو حکم دیا گیا کہ وہ خوب سمٹ کر بیٹھا کریں۔”
(جامع المسانید للخَوَارزمي : ١/٤٠٠)
تبصرہ:
یہ جھوٹ کا پلندہ ہے، کیونکہ
1۔ زر بن نجیح بصری کے حالات زندگی نہیں ملے۔
2۔ احمد بن محمد بن خالد کے حالات اور توثیق درکار ہے۔
3۔ علی بن محمد بزار کے حالات بھی نہیں مل سکے۔
4۔ ابراہیم بن مہدی راوی کا تعین مطلوب ہے۔
5۔ صاحب کتاب ابوالمؤید محمد بن محمود خوارزمی کی بھی توثیق مطلوب ہے۔
اس سند میں اور بھی علتیں ہیں۔
دوسری سند میں ابو محمد عبداللہ بن محمد بن یعقوب بخاری راوی کذاب ہے۔
(کتاب القراء ت للبیہقي ص ١٥٤، الکشف الحَثیث ص ٢٤٨، لسان المیزان : ٣/٣٤٨۔٣٤٩)
دوسرے راوی عبداللہ بن احمد بن خالد رازی،زکریا بن یحییٰ اور قبیصہ طبری کے حالات زندگی اور توثیق ثابت نہیں ہو سکی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے خلاف ایسی جھوٹی کتابوں کی جھوٹی روایات پیش کرنا دینِ اسلام کی کوئی خدمت نہیں، خوب یاد رہے!
تنبیہ نمبر:1
1۔ نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
کُنَّ نِسَاءُ ابْنِ عُمَرَ یَتَرَبَّعْنَ فِي الصَّلَاۃِ.
”سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما کی ازواج نماز میں چار زانوں ہو کر بیٹھتی تھیں۔”
(مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٧٠، وسندہ، صحیحٌ)
2۔ نیز نافع رحمہ اللہ خود کہتے ہیں:
‘تَرَبَّعُ’ ”عورت چار زانوں ہو کر بیٹھے۔” (مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٧٠، وسندہ، صحیحٌ)
اگر اُمتیوں سے نماز کا طریقہ لینا ہے، تو پھر بعض الناس کی عورتیں چا زانوں ہو کر کیوں نہیں بیٹھتیں؟ اگر وہ کہیں کہ یہ عذر پر محمول ہے تو پھر عورت کے لیے بیٹھنے کی خاص حالت با سند صحیح بیان کریں، ورنہ مانیں کہ مرد و عورت کا نمازمیں بیٹھنے کا طریقہ ایک جیسا ہے۔
تنبیہ نمبر : 2
1۔ مکحول شامی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ أُمَّ الدرداء، کَانَتْ تَجْلِسُ فِي الصَّلَاۃِ کَجِلْسَۃِ الرَّجُلِ.
” ام الدرداء’ نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں۔”
(مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٧٠،التاریخ الصغیر للبخاري : ١/١٩٣، وسندہ، صحیحٌ)
2۔ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
تَقْعُدُ الْمَرْأَۃُ فِي الصَّلَاۃِ کَمَا یَقْعُدُ الرَّجُلُ.
”عورت نماز میں مرد کی طرح بیٹھے گی۔” (مصنف ابن أبي شیبۃ: ١/٢٧٠، وسندہ، صحیحٌ)
یہی حدیث کے موافق عمل ہے، لہٰذا عورت کا نماز میں بیٹھنا مرد کی طرح ہونا چاہئے۔
دلیل نمبر: 7
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
وَیَأْمُرُ النِّسَاءَ یَنْخَفِضْنَ فِي سُجُودِہِنَّ، وَکَانَ یَأْمُرُ الرِّجَالَ أَنْ یَّفْرِشُوا الْیُسْرٰي وَیَنْصِبُوا الْیُمْنٰي فِي التَّشَہُّدِ، وَیَأْمُرُ النِّسَاءَ أَنْ یَتَرَبَّعْنَ.
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو حکم دیتے کہ وہ اپنے سجدے میں جھک جائیں اور مردوں کو حکم فرماتے کہ تشہد میں اپنا بایاں پاؤں بچھائیں اور دایاں کھڑا کریں اور عورتوں کو حکم کرتے کہ وہ چار زانو ہو کر بیٹھیں۔” (السنن الکبریٰ للبیہقي : ٢/٢٢٢۔٢٢٣)
تبصرہ:
یہ جھوٹی روایت ہے۔ اس کی سند میں عطاء بن عجلان راوی باتفاق محدثین ”متروک” اور ”کذاب” ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
مَتْرُوْکٌ بَلْ أَطْلَقَ عَلَیْہِ ابْنُ مَعِیْنٍ وَالْفَلاَّسُ وَغَیْرُہُمَا الْکَذِبَ.
”یہ متروک راوی ہے، بل کہ امام ابن معین اور فلاس رحمہ اللہ وغیرہما نے اس پر ‘کذاب’ کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔” (تقریب التہذیب : ٤٥٩٤)
امام بیہقی رحمہ اللہ (٣٨٤۔٤٥٨ھ) اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد خود فرماتے ہیں کہ اس جیسی ”ضعیف” روایت سے حجت نہیں پکڑی جا سکتی۔ (السنن الکبریٰ : ٢/٢٢٢)
دلیل نمبر: 8
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا جَلَسَتِ الْمَرْأَۃُ فِي الصَّلَاۃِ وَضَعَتْ فَخِذَہَا عَلٰی فَخِذِہَا الْـأُخْرٰي، وَإِذَا سَجَدَتْ أَلْصَقَتْ بَطْنَہَا فِي فَخِذَیْہَا کَأَسْتَرِ مَا یَکُونُ لَہَا، وَإِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰي یَنْظُرُ إِلَیْہَا وَیَقُولُ : یَا مَلَائِکَتِي أُشْہِدُکُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَہَا.
”جب عورت نماز میں بیٹھے، تو اپنی ران کو دوسری ران کے اوپر رکھے اور جب سجدہ کرے، تو اپنے پیٹ کو اپنی ران کے ساتھ چمٹا لے، جتنا ہو سکے ستر کرے۔ اللہ تعالیٰ اس کے طرف دیکھتا ہے اور فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اسے معاف فرما دیتا ہے۔”
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : ٢/٢١٤، السنن الکبریٰ للبیہقي : ٢/٢٢٣، تاریخ أصبھان : ٢/٣٣٦، کنز العُمَّال للھندي : ٧/٥٤٩)
تبصرہ:
موضوع (من گھڑت) روایت ہے۔
1۔ ابو محمد عبیداللہ بن محمد بن موسیٰ سرخسی کے حالات نامعلوم ہےں۔
2۔ راوی محمد بن القاسم بلخی کے بارے میں امام ابن حبان رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
رَوٰی عَنْہُ أَہْلُ خُرَاسَانَ أَشْیَاءَ لَا یَحِلُّ ذِکْرُہَا فِي الْکُتُبِ فَکَیْفَ الْـإِشْتِغَالُ بِرِوَایَتِہَا وَیَأْتِي مِنَ الْـأَخْبَارِ مَا تَشْہَدُ الْأُمَّۃُ عَلٰی بُطْلَانِہَا وَعَدْمِ الصِّحَّۃِ فِي ثُبُوْتِہَا لَیْسَ یَعْرِفُہ، أَصْحَابُنَا وَإِنَّمَا کَتَبَ عَنْہُ أَصْحَابُ الرَّأْیِ لٰکِنِّي ذَکَرْتُہ، لِئَلَّا یَغْتَرَّ بِہٖعَوَامُأَصْحَابِنَا بِمَا یَرْوِیْہٖ.
”اس سےخراسان والوں نے ایسی روایات بیان کی ہیں، جن کا کتابوں میں ذکر کیا جانا جائز نہیں۔ پھر اس کی روایت کےساتھ مشغول ہونا کیسے درست ہوگا؟ یہ ایسی روایات بیان کرتاہے، جن کے باطل ہونے اور غیرثاب ہونے پر اُمت گواہی دیتی ہے، محدثین اسے پہچانتے ہی نہیں۔ اس سے تو اصحاب الرائے نے روایات لکھی ہیں، لیکن میں نے اسے اس لیے ذکر کر دیا ہے تاکہ ہمارے عام دوست اس کی روایات سے دھوکہ نہ کھا جائیں۔” (المجروحین : ٢/٣١١)
3۔ ابو مطیع حکم بن عبداللہ بلخی راوی سخت ترین مجروح و ضعیف ہے۔
1۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
صَاحِبُ رَأْيٍ ضَعِیْفٌ .
”عقل پرست اور ضعیف راوی ہے۔” (الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : ٢/٢١٤)
2۔ امام نسائی رحمہ اللہ اسے ”ضعیف” قرار دیتے ہیں۔ (الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : ٢/٢١٤)
3۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لاَیَنْبَغِي أَنْ یُّرْوٰي عَنْہ.
”اس سے روایات لینا جائز نہیں۔” (کتاب العِلَل ومعرفۃ الرجال : ٥٣٣١)
4۔ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَیْسَ بِشَيْءٍ.
”یہ فن حدیث میں کچھ بھی نہیں۔” (تاریخ یحییٰ بن معین بروایۃ الدوري : ٤٧٦٠)
5۔ حافظ ابن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَکَانَ مُرْجِئًا وَھُوَ ضَعِیْفٌ عِنْدَھُمْ فِي الْحَدِیْثِ .”
یہ مرجی تھا اور محدثین کے ہاں حدیث میں ضعیف تھا۔”
(الطبقات الکبریٰ : ٦/١٩٨)
6۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے الضعفاء والمتروکین میں ذکر کیا ہے۔
(کتاب الضعفاء والمتروکین : ١٦٢)
7۔ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَأَبُوْ مُطِیْعٍ بَیِّنُ الضُّعْفِ فِي أَحَادِیْثِہٖوَعَامَّۃُمَایَرْوِیْہِلاَیُتَابَعُعَلَیْہٖ.
”ابو مطیع کیا حادیث میں واضح ضعف ہے۔ اس کی اکثر روایات کی متابعت نہیں کی گئی۔”
(الکاملفيضعفاءالرجال : ٢/٢١٤)
8۔ امامابنحبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کَانَ مِنْ رُؤَسَاءِ الْمُرْجِئَۃَ مِمَّنْ یُّبْغِضُ السُّنَنَ وَمُنْتَحِلِیْہَا.
”یہ مرجیہ کے ان سرداروں میں تھا، جو احادیث اور اہل حدیث سے بغض رکھتے تھے۔”
(المجروحین : ١/٢٥٠)
9۔ امام عبد الرحمان بن ابی حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سَأَلْتُ أَبِي عَنْ أَبِي مُطِیْعِ الْبَلْخِيِّ فَقَالَ: کَانَ قَاضِيُّ بَلْخٍ وَکَانَ مُرْجِئًا ضِعِیْفُ الْحَدِیْثِ. وَانْتَہٰی فِي کِتَابِ الزَّکَاۃِ إِلٰی حَدِیْثٍ لَّہ، فَامْتَنَعَ مِنْ قِرَاءَ تِہٖ.
”میںنےاپنےوالدمحترم (امامابوحاتمرازی رحمہ اللہ ) سے ابو مطیع بلخی کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے فرمایا: یہ بلخ کا قاضی تھا، مرجی تھا، حدیث میں ضعیف تھا۔ وہ (امام ابوحاتم رحمہ اللہ ) کتاب الزکاۃ میں اس کی حدیث پر پہنچے، تو پڑھنے سے رُک گئے اور فرمایا: میں اس سے حدیث بیان نہیں کروں گا۔”
(الجرح والتعدیل : ٣/١٢٢)
10۔ امام عمرو بن علی الفلاس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أَبُوْ مُطِیْعِ الْحَکَمُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ ضَعِیْفُ الْحَدِیْثِ.
”ابو مطیع حکم بن عبداللہ حدیث میں ضعیف ہے۔” (تاریخ بغداد للخطیب : ٨/٢٢٥، وسندہ، صحیحٌ)
11۔ حافظ خلیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَکَانَ مُرْجِئِیًّا، وَہُوَ صَالِحٌ فِي الْحَدِیثِ، إِلَّا أَنَّ أَہْلَ السُّنَّۃِ أَمْسَکُوا عَنْ رِوَایَۃِ حَدِیثِہٖ.
”یہ مرجیتھا اورصالح الحدیث تھا، لیکن اہلسنت اس کی حدیث کو روایت کرنےسے رُک گئے ہیں۔”
(الإرشادفيمعرفۃعلماءالحدیث : ١/٢٧٦)
12۔ حافظسیوطی رحمہ اللہ امام حاکم رحمہ اللہ سے ایک روایت کے بارے میں نقل کرتے ہیں:
إِسْنَادُہ، فِیہٖمظْلِمَاتٌوَالْحَدِیْثُبَاطِلٌوَالَّذِيتَوَلّٰیکِبْرَہ،،أَبُومُطِیعٍ .
”اس کی سند اندھیروں والی ہے۔ یہ حدیث باطل ہے اور یہ ابومطیع کی گھڑنت ہے۔”(اللآليالمصنوعۃ : ١/٣٨)
13۔ حافظابنالجوزی رحمہ اللہ ابو مطیع وغیرہ کی ایک سند کے بارے میں کہتے ہیں:
ھٰذَا الْـإِسْنَادُ لاَ یُسَاوِي شَیْئًا.
”یہ سند کسی کام کی نہیں۔” (نصب الرایۃ للزیلعي : ٢/٣٨٥)
14۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ‘وَھُوَ مَتْرُوْکٌ’ ”یہ متروک راوی ہے۔” (مَجمع الزوائد : ٨/٢٧٥)
15۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ‘تَرَکُوْہ،’ ”محدثین نے اسے چھوڑ دیا تھا۔”(المغني في الضعفاء : ١/٢٨٠)
نیز فرماتے ہیں:
وَاہٍ فِي ضَبْطِ الْـأَثَرِ.
”حدیث کے ضبط میں نہایت کمزور تھا۔” (میزان الاعتدال : ١/٥٧٤)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ ابو مطیع کو یوں ”وضاع” (حدیثیں گھڑنے والا) قرار دیتے ہیں:
فَھٰذَا وَضَعَہ، أَبُوْ مُطِیعٍ عَلٰی حَمَّادٍ.
”اس حدیث کو ابو مطیع نے حماد سے منسوب کر کے گھڑا ہے۔” (میزان الاعتدال : ١/٥٧٤)
تنبیہ بلیغ:
حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَکَانَ ابْنُ الْمُبَارَکَ یُعَظِّمُہ، وَ یُجِلُّہ، لِدِیْنِہٖ وَعِلْمِہٖ.
”ابن مبارک رحمہ اللہ اس کی تعظیم کرتے تھے اور اس کے دین اور علم کی وجہ سے اس کی توقیر کرتے تھے۔” (میزان الاعتدال : ١/٥٧٤)
یہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا سہو ہے، حوالہ بے ثبوت و بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
قارئین کرام! ابو مطیع بلخی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب تصنیف ”الفقہ الاکبر” کا راوی ہے، جس کا حال آپ نے اچھی طرح معلوم کر لیا ہے۔ ائمہ محدثین نے کس طرح اس کی خبر لی ہے، ثابت ہوا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب روایات و تصانیف کا کوئی اعتبار نہیں۔ والحمد للہ علی ذلک!
لہٰذا یہ روایت جھوٹی ہے، خود امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس جیسی روایت سے حجت نہیں پکڑی جا سکتی۔ (السنن الکبریٰ : ٢/٢٢٢)
دلیل نمبر: 9
یزید بن ابی حبیب رحمہ اللہ (م:١٢٨ھ) بیان کرتے ہیں:
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَی امْرَأَتَیْنِ تُصَلِّیَانِ فَقَالَ: إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَی الْـأَرْضِ فَإِنَّ الْمَرْأَۃَ لَیْسَتْ فِي ذٰلِکَ کَالرَّجُلِ.
”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتی دو عورتوں کے پاس سے گزرے تو فرمایا : جب تم سجدے کرو تو کچھ گوشت زمین سے ملا دیا کرو، کیوں کہ عورت اس معاملے میں مرد کی طرح نہیں۔”
(السنن الکبریٰ للبیہقي : ٢/٢٢٣، المراسیل لأبي داود : ٨٧)
تبصرہ:
روایت مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، کیوں کہ تابعی براہ ِراست نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہا ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں کہ یہ ”منقطع” ہے۔
امام مسلم رحمہ اللہ (٢٠٤۔٢٦١ھ) مرسل روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَالْمُرْسَلُ مِنَ الرِّوَایَاتِ فِي أَصْلِ قَوْلِنَا، وَقَوْلِ أَہْلِ الْعِلْمِ بِالْـأَخْبَارِ لَیْسَ بِحُجَّۃٍ.
”مرسل روایت ہمارے اور محدثین کے قول کے مطابق حجت نہیں ہے۔”
(مقدمۃ صحیح مسلم : ١/٢٢، ح : ٢٠، طبع دارالسّلام)
دلیل نمبر: 10
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَۃُ فَلْتَحْتَفِرْ وَلْتَضُمَّ فَخِذَیْہَا.
”جب عورت سجدہ کرے، تو سمٹ جائے اور اپنی دونوں رانیں جوڑ لے۔”
(مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٦٩، واللفظ لہ،، السنن الکبریٰ للبیہقي : ٢/٢٢٢)
تبصرہ: یہ قول بلحاظ سند سخت ”ضعیف” ہے، کیوں کہ
1۔ ابو اسحاق سبیعی ”مدلس” ہیں۔(طبقات المُدلِّسین لابن حجر : ٤٢)
جو کہ لفظِ ”عن”سے بیان کر رہے ہیں، جب ثقہ راوی بخاری و مسلم کے علاوہ ”عن” سے روایت کرے، تو وہ ضعیف ہوتی ہے تاوقتیکہ راوی سماع کی تصریح کردے۔
2۔ حارث بن عبداللہ اعور راوی باتفاق محدثین ”ضعیف” اور ”کذاب” ہے۔ اس کے حق میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں۔ حافظ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
أَلْحَارِثُ الْـأَعْوَرُ مُتَّفَقٌ عَلٰی ضُعْفِ ہٖوَتَرْکِ الْـإِحْتِ جَاجِبِہٖ .
”حارث اعور کے ضعیف ہونے اور اس سےحجت نہ لینے پر محدثین کا اتفاق ہے۔”
(المَجموعشرحالمُھَذَّب : ٣/٢٨٨)
دلیلنمبر: 11
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے عورت کی نماز کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا:
تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِرُ.
”وہ اکٹھی ہو جائے گی اور سمٹ جائے گی۔” (مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٧٠، ح : ٢٧٩١)
تبصرہ:
اس قول کی سند انقطاع کی وجہ سے ”ضعیف” ہے، کیونکہ
1۔ بکیر بن عبداللہ اشج راوی کے بارے میں امام حاکم رحمہ اللہ (٤٠٥ھ) لکھتے ہیں کہ اس کا شمار تابعین میں تو کیا جاتا ہے، لیکن اس کا صحابہ کرام سے سماع ثابت نہیں۔ (معرفۃ علوم الحدیث : ٤٥)
منقطع روایت محدثین کے نزدیک ”ضعیف” ہوتی ہے۔
2۔ حافظ عراقی رحمہ اللہ (٧٦٢۔٨٢٦ھ) لکھتے ہیں:
ذَکَرَہُ ابْنُ حِبَّانُ أَیْضًا فِي أَتْبَاعِ التَّابِعِیْنَ.
”امام ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی اسے تبع تابعین میں ذکر کیا ہے۔”(تحفۃ التحصیل في ذکر رواۃ المراسیل : ٤٠)
3۔ بکیر بن عبداللہ کے بارے میں امام حاکم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
لَمْ یَثْبُتْ سَمَاعُہ، مِنْ عَبْدُاللّٰہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جُزْئٍ، وَ اِنَّمَا رُوَاتُہ، عَنِ التَّابِعِیْنَ.
”اس کا سماع سیدناعبداللہ بن حارث بن جزئ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں، بل کہ اس کی روایات تابعین سے ہیں۔” (معرفۃ علوم الحدیث : ٤٥)
سیدناعبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی وفات سن ٨٨ ہجری میں ہوئی، بکیر بن عبداللہ اشج کا ان سے سماع نہیں، تو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سن ٦٩ ہجری میں فوت ہوئے، ان سے سماع کیسے ممکن ہے؟
الحاصل:
یہ قول بہ لحاظ سند ثابت نہیں۔
ثابت ہوا کہ مرد اور عورت کے رکوع و سجود کے طریقہ میں کوئی فرق نہیں، یہ فرق باسند صحیح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی سے قطعا ثابت نہیں۔
دلیل نمبر: 12
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الْمَرْأَۃُ تَضْطَمُّ فِي السُّجُودِ.
”عورت سجدہ میں اپنے آپ کو سمیٹ کر رکھے گی۔” (مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٧٠)
تبصرہ:
اس کی قول کی سند ضعیف ہے۔ ہشام بن حسان بصری ”مدلس” ہیں۔ (طبقات المدلسین لابن حجر : ٤٧)
امام اسماعیل بن علیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
کُنَّا لاَ نَعُدُّ ھِشَامَ بْنَ حِسَانٍ فِي الْحَسَنِ شَیْئًا.
”ہم ہشام بن حسان کو حسن بصری سے روایت میں کچھ نہیں سمجھتے تھے۔”
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : ٩/٥٦)
یہ جرح مفسر ہے۔ حیرانی ہے کہ اس کے باوجود بعض لوگ ہشام بن حسان کی حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں، نہ جانے کیوں؟
دلیل نمبر: 13
معمر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام قتادہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَۃُ فَإِنَّہَا تَنْضَمُّ مَا اسْتَطَاعَتْ، وَلَا تَتَجَافٰی لِکَي لَا تَرْفَعَ عَجِیزَتَہَا.
”جب عورت سجدہ کرے، تو جتنا ممکن ہو، سمٹ جائے اور کہنیوں کو پہلو سے دور نہ کرے تاکہ اپنی کمر اوپر نہ اُٹھائے۔” (مُصنَّف عبد الرزاق : ٣/١٣٧، ح : ٥٠٦٨)
تبصرہ:
سند ”ضعیف” ہے۔ اس میں اما م عبدالرزاق بن ہمام صنعانی رحمہ اللہ ”مدلس” ہیں، ”عن” سے روایت کر رہے ہیں، سماع کی تصریح نہیں ملی۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ کے قول کے ”ضعیف” ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ امام معمر بن راشد رحمہ اللہ نے امام حسن بصری رحمہ اللہ سے نہ سماع کیا ہے، نہ ہی ان کو دیکھا ہے۔
(المراسیل لابن أبي حاتم : ٢١٩)
لہٰذا یہ قول” مدلَّس و منقطع” ہے۔
دلیل نمبر: 14
امام مجاہد رحمہ اللہ تابعی کے بارے میں ہے:
إِنَّہُ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یَضَعَ الرَّجُلُ بَطْنَہ، عَلٰی فَخِذَیْہِ إِذَا سَجَدَ کَمَا تَضَعُ الْمَرْأَۃُ.
”آپ مرد کے سجدے میں عورت کی طرح اپنے پیٹ کو رانوں سے ملانا نا پسند مکروہ سمجھتے تھے۔
(مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٧٠)
تبصرہ:
اس قول کی سند سخت ترین ”ضعیف” ہے، کیوں کہ اس کا راوی لیث بن ابی سلیم جمہور کے نزدیک ”ضعیف” اور ”سیئ الحفظ” ہے۔ امام احمد بن حنبل، امام دارقطنی، امام یحییٰ بن مَعین، امام ابو حاتم رازی، امام ابو زرعہ رازی، امام نسائی، امام ابن عدیs اور جمہور محدثین نے اسے حدیث میں ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔
1۔ اس کے بارے میں حافظ عراقی رحمہ اللہ (٧٢٥۔٨٠٦ھ) لکھتے ہیں:
ضَعَّفَہُ الْجُمْھُوْرُ.
”جمہور محدثین نے اسے ضعیف کہا ہے۔”
(المغني عن حمل الأسفار في الأسفار : ٢/١٧٨، تخریج أحادیث الإحیاء للحَدَّاد : ١٦٤٨)
2۔ حافظ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
لَیْثُ بْنُ أَبِي سَلَیْمٍ، فَضَعَّفَہُ الْجَمَاہِیْرُ.
”لیث بن ابی سلیم کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔” (شرح مقدمۃ مسلم ص ٤)
3۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَضَعَّفَہُ الْـأَکْثَرُ.
”جمہور محدثین نے اسے ضعیف کہا ہے۔” (مجمع الزَّوائد : ١/٩٠۔٩١، ٢/١٧٨)
4۔ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ضَعِیْفٌ عِنْدَ الْجُمْھُوْرِ.
” جمہور محدثین نے نزدیک ضعیف ہے۔” (البدر المنیر : ٢/١٠٤)
5۔ حافظ بوصری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ضَعَّفَہُ الْجُمْھُوْرُ.
”جمہور محدثین نے اسے ضعیف کہا ہے۔” (مِصباح الزُّجاجۃ في زَوائد ابن ماجۃ : ٥٤)
6۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کو ”ضعیف الحفظ” کہا ہے۔ (تغلیق التعلیق : ٢/٣٣٧)
دلیل نمبر: 15
امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إِذَا سَجَدَتِ الْمَرْأَۃُ فَلْتَلْزَقْ بَطْنَہَا بِفَخِذَیْہَا، وَلَا تَرْفَعْ عَجِیزَتَہَا، وَلَا تُجَافِي کَمَا یُجَافِي الرَّجُلُ .
”جب عورت سجدہ کرے، تو پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ چمٹائے اور اپنی کمر کو بلند نہ کرے اور کہنیوں کو پہلو سے دور کرے، جیسا کہ مرد کرتے ہیں۔” (مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢٧٠، وسندہ، صحیحٌ)
تبصرہ:
یہ نہ قرآن ہے، نہ حدیث، نہ قول صحابی اور نہ قول ابی حنیفہ۔ یہ ایک مسلمان کا اجتہاد ہے، جو صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ ویسے بھی جو لوگ مرد و عورت کے طریقہ نماز میں فرق کرتے ہیں، وہ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے کئی اجتہاد ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کو چاہئے کہ اپنے مزعوم امام سے با سندِ صحیح یہ فرق ثابت کریں، ورنہ مانیں۔۔۔
قارئین کرام! یہ بعض الناس کا کل کائنات ہے، جس کا حشر آپ نے دیکھ لیا، قرآن و حدیث یا کسی صحابی سے مرد اور عورت کے طریقہ نماز میں فرق ثابت نہیں ہوسکا۔ صرف اور صرف امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا قول ثابت ہے، خوب یاد رہے کہ عبادت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے مطابق ادا کرنی چاہئے، نہ کہ اُمتیوں کے اجتہادات کے مطابق۔
محدث البانی رحمہ اللہ نے کیا خوب لکھا ہے:
وَلاَ أَعْلَمُ حَدِیْثًا صِحِیْحًا فِي التَّفْرِیْقِ بَیْنَ صَلَاۃِ الرَّجُلِ وَصَلاَۃِ الْمَرْأَۃِ، وَإِنَّمَا ہُوَ الرَّأْیُ وَالْـإِجْتِہَادُ .
”میں نے مرد و عورت کے طریقہ نماز میں فرق کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں دیکھی، یہ صرف رائے اور اجتہاد ہے۔” (السلسلۃ الضعیفۃ : ٥٥٠٠)
جس نے بھی یہ فرق بیان کیا ہے، اپنے اجتہاد سے بیان کیا ہے۔ ہر ایک کے اجتہاد کو قرآن و حدیث پر پیش کیا جائے، اگر موافق ہو تو لے لیا جائے ورنہ رد کر دیا جائے۔
واضح رہے کہ احناف زیر ناف ہاتھ باندھتے ہیں، جب کہ ان کی عورتیں سینے پر ہاتھ باندھتی ہیں، یہ فرق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور امام ابو حنیفہ سے بھی با سند صحیح ثابت نہیں ہے، فرمانِ نبوی ہے:
صَلُّوا کَمَا رَأَیْتُمُونِي أُصَلِّي.
”نماز میرے طریقے کے مطابق پڑھیں۔” (صحیح البخاري : ٦٣١)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عام ہے۔ ہر مرد و عورت کو شامل ہے۔ کسی صحیح مرفوع یا موقوف روایت سے بھی مر دو عورت کے طریقہ نمازمیں فرق ثابت نہیں ہے۔ شریعت نے نماز کے بعض مسائل میں عورتوں کے لیے مخصوص احکام صادر کیے ہیں، مثلاً: لباس، امام کو لقمہ دینے کے لیے ہاتھ پر ہاتھ مارنا، امامت کی صورت میں صف کے درمیان میں کھڑے ہونا، صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہونا، وغیرہ وغیرہ، لیکن یہ صورتیں شرعی دلائل کی روشنی میں مستثنیٰ کی گئی ہیں، نیز یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ان کا طریقہ نماز سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
حنفی مذہب کی معتبر کتاب میں لکھا ہوا ہے:
اِنَّ کُلَّ حُکْمٍ ثَبَتَ لِلرِّجَالِ ثَبَتَ لِلنِّسَاءِ لِـأَنَّہُنَّ شَقَائِقُ الرِّجَالِ إلَّا مَا نُصَّ عَلَیْہِ.
”ہر حکم، جو مردوں کے لیے ثابت ہو، وہی حکم عورتوں کے لیے ہے، کیوں کہ عورتیں مردوں کی نظائر ہیں، سوائے اس حکم کے جس پر (خاص) نص وارد ہو جائے۔” (البَحر الرَّائق لابن نُجَیم الحنفي : ١/٤٣)
جب مردوں کے لیے نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا صحیح احادیث سے ثابت ہو گیا، تو عورتوں کے لیے یہی حکم ہو گا۔ بعض نے اتفاق کا دعویٰ کیا ہے کہ عورت سینے پر ہاتھ باندھے گی۔ اولاً اتفاق کا یہ دعویٰ کسی ثقہ امام سے ثابت نہیں ہے، تقلید پرستوں کے دعویٰ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اتفاق کا یہ دعویٰ باطل و مردود ہے۔
الحاصل:
قارئین کرام! ہم نے مر دو عورت کی نماز میں فرق کرنے کے حوالے احناف کے تمام دلائل کا منصفانہ جائزہ آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے۔
آپ خود اندازہ لگا لیں کہ ان کے دلائل میں کتنی جان ہے؟ جب کہ صحیح فرمانِ رسول جو ہم نے پیش کر دیا ہے، اس کے مطابق مردو عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو اپنے جیسی نماز پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ اب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طریقے سے نماز پڑھی ہے، وہ کتب حدیث میں موجود ہے اور اس میں ایسا کوئی فرق بیان نہیں کیا گیا۔
اب فیصلہ کریں کہ مرد زن کی نماز میں فرق کر نا دین اسلام سے محبت ہے یا….؟؟
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ