مرد اور نزاکت
اللہ تعالیٰ نے عورت کو نرم و نازک وجود عطا کیا ہے اور اسے جائے سکون بنایا ہے، وہ اپنے جذبات میں بھی نرم و نازک ہوتی ہے اور بدن میں بھی، اس نرمی اور نزاکت میں اضافہ عورت کے لیے کبھی بھی عیب نہیں رہا، عورت اگر اپنا حسن اور بدن کی ملائمی و نرمی کو قائم رکھنے کی کوشش کرتی ہے تو یہ اس کے لیے معیوب نہیں ہے، بشرطیکہ اس میں غلو اختیار نہ کیا جائے
اس کے برعکس *اللہ تعالیٰ نے مرد کو مضبوط بدن مضبوط مزاج پیدا کیا ہے، اس کا حسن اس کے کھردرے جسم اور مضبوط ارادوں سے وابستہ ہے، مضبوط بازو، سینے پر بال، جسم پر داڑھی مرد کا رعب قائم کرتے ہیں، یہ سب کچھ مردانگی کا حصہ اور جزو لاینفک ہے-*
*اگر کوئی مرد اپنی ظاہری وضع قطع میں ان مردانہ اوصاف کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ اس کا زنانہ پن اور عورتوں سے مشابہت ہے جو مرد کے لیے انتہائی معیوب اور قابل مذمت ہے*
عبد اللہ بن احمد بن حنبل رحمھم اللہ کہتے ہیں:
میرے والد نے میرے پاؤں دیکھے، جو کہ نرم سے تھے، ایڑھیاں پھٹی پھٹی سی نہیں تھیں، کہنے لگے: *تم پیدل کیوں نہیں چلتے تاکہ تمھارے پاؤں سخت ہو جائیں* (مناقب الإمام أحمد لابن الجوزي ٧٧٩/١)
غور کریں کہ امام احمد کو اپنے بیٹے کے پاؤں کی نرمی چبھ رہی ہے، اور وہ اسے پیدل چلنے کا کہہ رہے ہیں تاکہ یہ پاؤں کھردرے ہو جائیں۔ یہی مرد کا حسن ہے۔
عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عمال کو خط بھیجا تو فرمایا:
إیاکم والتنعم وزي أھل الشرک ولبوس الحریر (مسلم: 2069)
کہ *زیادہ نعمتوں میں گِھر جانے سے بچ جاؤ،* مشرکین کی وضع قطع ترک کر دو اور ریشم پہننے سے اجتناب کرو
زیادہ نعمتوں میں رہنے سے مردوں میں نزاکت آ جاتی ہے، وہ آسائشوں کے عادی ہو کر مردانہ اوصاف و قوت سے عاری ہونے لگتے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے اپنے عمال اور مسلمانوں کو روک ڈالا۔
اصل میں اس مردانگی کو اور مردانہ مزاج و اوصاف کو قائم رکھنا بہت ضروری ہے
جب اس کو ترک کر دیا جائے تو مردوں میں تخنث اور عورتوں کی مشابہت در آتی ہے لھذا *مردوں کو ہمیشہ اپنے آپ کو مشقت کا عادی اور کھردرے جسم کا مالک رہنا چاہیے، اتنی آسائشیں جو لڑکیوں کی طرح کی نزاکت لے آئیں ان سے بالکل دور رہنا چاہیے*
موھب الرحیم