مرد و عورت کی نماز میں فرق
یہ ایک اہم مسئلہ ہے جو مختلف فیہ ہے اس اختلاف کے بنیاد احناف مرد و عورت کی نماز میں فرق کرتے ہیں اور اھل حدیث حضرات مرد و عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے۔
مجھے اس موضوع کو مسلکی بحث نہیں بنانا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مسلک ومنھج کو بیان کرنا ہے۔
میرے جن احباب کو میری اس بحث کے کسی نکتہ سے اختلاف ہو تو علمی انداز میں مدلل گفتگو کر سکتا ہے مجھے خوشی ہو گی۔
احناف کے بقول عورت کی نماز پانچ مقامات پر مرد کی نماز سے فرق کرتی ہے۔ جو درج ذیل ہیں:
اول: تکبیر تحریمہ سے پہلے رفع الیدین کرنا مرد کانوں کے برابر تک دونوں ہاتھ اٹھائے اور عورت کاندھوں کے برابر تک اس لیے کہ اس میں عورت کے لیے زیادہ پردہ ہے۔
دوم: مرد اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھے اور عورت اپنے ہاتھ اپنے چھاتیوں کے نیچے سینے پر رکھے بغیر ہاتھوں کے پکڑے بلکہ ہتھیلی کے اوپر ہتھیلی رکھے اس لیے کہ اس میں اس کے لیے زیادہ پردہ ہے۔
سوم: مرد رکوع میں مضبوطی سے اپنے ہاتھوں سے اپنے گھٹنوں کو پکڑ لے اور کمر کو توڑ دے یعنی اسے ہموار رکھے نہ وہ اونچی ہو نہ نیچی۔ لیکن عورت اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو کشادہ کرے نہ اپنے گھٹنے پکڑے بلکہ اپنی انگلیوں کو ملا لے اور اپنے ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھے اور اپنے گھٹنوں کو خم دے اور اپنے بازوؤں کو اپنے ساتھ ملا کر رکھے۔ اس لیے کہ اس میں زیادہ پردہ یے۔
چہارم: مرد کے سجدے کے بر خلاف عورت سجدہ سمٹ اور دبک کر کرے اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملا لے اور اپنے بازوؤں کو بھی پہلوؤں کے ساتھ ملا لے اس لیے کہ عورت کے معاملے کی بنیاد ستر پر ہے۔
پنجم: آخری تشہد میں مرد کے بیٹھنے کے بر خلاف عورت آخری تشہد میں تورک کر کے اپنی پیٹھ پر بیٹھے گی اور ران کو ران پر رکھ لے اور اپنے پیر کو پیٹھ کے نیچے سے باہر نکال لے کہ اس میں اس کے لیے زیادہ پردہ ہے۔
میں اس مسئلہ کو علمی انداز میں سمجھنا چاہ رہا ہوں کہ:
پہلا سوال:
اگر عورت کندھے تک ہاتھ اٹھانے کے بجائے دو انچ اور زیادہ ہاتھ اٹھا کر کانوں کے برابر یعنی مردوں کی طرح ہاتھ اٹھا لے اس میں بے پردگی کس طرح ہو گی؟
دوسرا سوال:
اسی طرح دوسرے چار فرق کے بارے میں بھی یہی سوال ہے کہ ان میں پردے کا پہلو کو طرح ہے یعنی اگر عورت مرد کی طرح ہی وہ کام کرے تو اس میں بے پردگی کس طرح اور کیسے ہو سکتی ہے؟
تیسرا سوال:
شریعت اسلامی نے عورت کے لیے پردہ کے مکمل احکام بیان کیے ہیں اور بے پردگی کی صورتوں سے روکا ہے اگر نماز کی ان کیفیات میں واقعی عورت کے لیے پردہ اور بصورت دیگر بے پردگی ہوتی تو کیا شریعت اس کا اہتمام کرنے کا حکم نہ دیتی؟
چوتھا سوال:
احناف کی کتب نماز میں اگر ان پانچ مقامات کے فرق کی بنیاد کوئی حدیث ہے تو پھر ہماری یہ باتیں غلط ہیں اور اعتراضات بھی صحیح نہیں ہیں۔ لیکن اگر ان پانچوں فرق کی بنیاد عقل و قیاس ہے تو پھر ہمیں عقل و قیاس کی بنیاد پر سوال کرنے کا حق حاصل ہے۔؟
پانچواں سوال:
نماز ایک عبادت ہے اور تمام عبادات کی طرح توقیفی عبادت ہے یعنی نماز اس طرح پڑھنی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ کر دکھائی ہے اور ہمیں حکم بھی دیا کہ:
صلوا کما رایتمونی اصلی۔ حدیث رسول:
تو جس چیز کی بابت کتاب و سنت میں کوئی حکم اور صراحت نہ ہو تو کیا عقل و قیاس کی بنیاد پر اسے فرض، واجب یا سنت یا مستحب قرار دیا جا سکتا ہے؟ اگر دیا جا سکتا ہے تو کس دلیل کی بنیاد پر؟
چھٹا سوال:
اگر ان فروق کی بنیاد کوئی حدیث ہے تو ضرور دی جائے۔
میں اس بات کا قائل ہوں کہ نماز ایک عبادت ہے اور اسے اس طرح انجام دینا چاہیے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا، اگر واقعی ہی مرد وعورت کی نماز میں فرق ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرق اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو ضرور بتایا اور سکھایا ہو گا یہ سب کہاں ہے؟
مرد و عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جس طرح مردوں کے لیے قابل اتباع ہے اسی طرح عورتوں کے لیے قابل اتباع ہے۔ دین میں عورت کے لیے استثنائی یا الگ سے احکام کی بے شمار مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن ان میں نماز کے بارے میں کوئی حکم نہیں ہے اگر کسی کے پاس ہے تو ضرور بتائیں۔
شاہ فیض الابرار صدیقی